Author Editor Hum Daise View all posts
سیموئیل بشیر
پنجاب اسمبلی نے حال ہی میں “پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2025” تیار کیا ہے جسے جلد منظور کرنے جا رہی ہے جس کے تحت یونین کونسل کی مخصوص نشستوں، جیسے کہ خواتین، نوجوان، کسان، اور غیر مسلم نمائندگان، کو براہ راست عوامی ووٹ سے نہیں بلکہ منتخب جنرل کونسلرز کے ذریعے بالواسطہ چننے کا نظام وضع کیا گیا ہے۔ اس پر سنجیدہ آئینی، جمہوری اور سماجی اعتراضات جنم لے چکے ہیں، خاص طور پر اقلیتی اور خواتین نمائندگی کے حوالے سے
براہ راست ووٹ کا حق: جمہوریت کی بنیاد
جمہوریت کا بنیادی اصول “ایک فرد، ایک ووٹ” ہے۔ جب مخصوص نشستوں پر عوامی ووٹ کو خارج کیا جاتا ہے، تو یہ اصول مجروح ہوتا ہے۔ خواتین اور اقلیتیں پہلے ہی سیاسی فیصلہ سازی میں پسماندہ ہیں، اور ان کے نمائندے اگر عوام کے ذریعے منتخب نہ ہوں تو ان کی اخلاقی اور جمہوری حیثیت کمزور ہو جاتی ہے۔
بالواسطہ انتخابات: نمائندگی یا مداخلت؟
بالواسطہ انتخاب میں مخصوص نشستوں پر فیصلہ جنرل کونسلرز کرتے ہیں جو سیاسی وابستگیوں، مقامی دباؤ یا ذاتی مفادات کی بنیاد پر فیصلہ کر سکتے ہیں۔ یہ اقلیتی نمائندوں کی خودمختاری اور جوابدہی کو متاثر کرتا ہے۔ انہیں منتخب کرنے والے عوام نہیں بلکہ مقامی سیاسی قوتیں ہوتی ہیں، جن سے ان کا رشتہ کمزور ہوتا ہے۔آئین پاکستان کا آآرٹیکل140 اے کہتا ہے کہ
“ہر صوبہ مقامی حکومتوں کو سیاسی، انتظامی اور مالی اختیارات تفویض کرے گا تاکہ وہ مؤثر طریقے سے عوامی خدمات انجام دے سکیں۔”جب مخصوص نشستیں عوامی انتخاب سے باہر کر دی جاتی ہیں، تو یہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 140اےکی روحکی نفی ہے۔ اگر مقامی حکومتیں صرف بیوروکریسی یا بالواسطہ نظام کے ماتحت ہوں تو اختیارات کی منتقلی ادھوری رہ جاتی ہے۔
سماجی شرکت اور اعتماد کا سوال
جب اقلیتوں اور خواتین کو براہ راست منتخب ہونے کا موقع نہیں ملتا تو عوام میں یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ یہ نمائندے محض “منتخب نمائندوں کی ذیلی تقرری” ہیں، عوامی مینڈیٹ کے حامل نہیں۔ اس سے ان کی حیثیت ثانوی بن جاتی ہے اور ان کی بات کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا، چاہے وہ یونین کونسل میں ہوں یا ضلعی سطح پر بین الاقوامی نظائر اور اقلیتوں کا حقِ رائے دہیبہت سے جمہوری ممالک میں اقلیتوں اور خواتین کے لیے مخصوص نشستیں براہ راست انتخابات کے ذریعے پر کی جاتی ہیں، جیسے؛
بھارت میں پنچایت راج نظام کے تحت خواتین اور درج فہرست ذاتوں کی مخصوص نشستوں پر براہ راست انتخابات ہوتے ہیں۔
یوگنڈا اور جنوبی افریقہ میں بھی مخصوص نشستوں پر عوامی ووٹ کا نظام رائج ہے تاکہ مساوی نمائندگی کو یقینی بنایا جا سکے۔
پاکستان میں بسنے والی مذہبی اقلیتیں پہلے ہی مذہبی و سماجی امتیاز، ملازمتوں میں کوٹہ پر عدم عملدرآمد اور دیگر بنیادی مسائل کا سامنا کر رہی ہیں۔ ان حالات میں اگر ان کی سیاسی نمائندگی بھی عوامی ووٹ کے بجائے بالواسطہ انتخاب سے ہو تو ان کا احساس محرومی مزید بڑھ جاتا ہے ۔ جب اقلیتی نمائندے عوام کی بجائے منتخب نمائندوں کے ذریعے نامزد کیے جانے ہیں تو وہ “اختیار سے محروم نمائندے ” بن کر رہ جاتے ہیں۔ ایسے نمائندے نہ تو اپنے ووٹرز کے سامنے جواب دہ ہوتے ہیں اور نہ ہی آن کے پاس وہ سیاسی طاقت اور اعتماد ہوتا ہے جو براہ راست منتخب نمائندوں کو حاصل ہوتا ہے۔ اس طرز نمائندگی سے مذہبی اقلیتوں کی آواز کمزور ہو جاتی ہے اور وہ محض نماشی حیثیت اختیار کر لیتی ہے۔خصوصی طور پر خواتین کے استحصال کو بھی صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔
عوامی ووٹ ہی اصل نمائندگی ہے۔
پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2025 میں مخصوص نشستوں پر بالواسطہ انتخابات ایک غیر جمہوری، غیر شفاف اور امتیازی قدم ہے۔ اقلیتوں اور خواتین کو اگر حقیقی معنوں میں بااختیار بنانا ہے، تو ان کی نشستوں پر براہ راست عوامی ووٹنگ لازمی بنائی جائے۔ یہی جمہوریت، مساوات اور آئینی تقاضوں کا اصل تقاضا ہے ۔ سفارشات
مخصوص نشستوں پر براہ راست انتخابات کا قانون بنایا جائے۔
مذہبی اقلیتوں، خواتین اور نوجوانوں کو انتخابی عمل میں خودمختاری دی جائے۔
آئین پاکستان کے آرٹیکل 140- اے کیآئینی روح کے مطابق اختیارات کی منتقلی یقینی بنائی جائے۔ تاکہ خواتین اور مذہبی اقلیتوں کا حکومت پر اعتماد بحال ہوسکے۔
Leave a Comment
Your email address will not be published. Required fields are marked with *