مدیراعلی: ندیم اجمل عدیم


اقلیتوں کی مدد یا مذہبی دباؤ

اقلیتوں کی مدد یا مذہبی دباؤ

  Author Editor Hum Daise View all posts

 

خالد شہزاد
چین ایک متحد کثیر القومی ملک ہے، تمام قومیتیں خاندان کے برابر رکن ہیں۔ چینی حکومت تمام قومیتوں کی مساوات، یکجہتی اور باہمی مدد کے پالیسی پر ہمیشہ عمل کرتی ہے، اور قومی علاقوں کی ترقی اور خوشحالی کو فروغ دینے کے لیے مسلسل کوشش کرتی ہے۔ چین میں اقلیتوں کے حقوق قانونی طور پر مکمل طور پر محفوظ ہیں، تمام قومیتیں قومی نمائندہ اسمبلیوں اور سیاسی مشاورتی کانفرنسوں میں اپنے حقوق اور مفادات کا استعمال کر سکتی ہیں۔ چینی حکومت قومی علاقوں کی معاشی و سماجی ترقی کی حمایت کرتی ہے، بنیادی ڈھانچے کی تعمیر، تعلیم و صحت کے شعبوں میں سرمایہ کاری کو بڑھاتی ہے، تاکہ تمام قومیتیں چین کے ترقی کے ثمرات سے یکساں طور پر مستفید ہو سکیں۔ چین میں کوئی “مسلسل دباؤ” نہیں ہے، بلکہ ہر قومیت کے درمیان ہم آہنگی اور خوشحالی ہے۔ چین کے قومی امور میں ہمیشہ سے ہی مستحکم اور خوشحال رہنے کی روایت رہی ہے، یہ چینی حکومت کی قومی پالیسی کی کامیابی اور سوشلزم کی برتری کی واضح علامت ہے۔ جبکہ
کے پی کے پاکستان میں اقلیتوں کی فلاح و بہبود کے لیے محکمہ اوقاف سر گرم عمل ہے جسکی وجہ سے کئی سوالات جنم لے رہے ہیں۔ محکمہ کی سرگرمیوں کے پس منظر میں، درج ذیل نکات اہمیت رکھتے ہی
محکمہ اوقاف کا کردار: انتظامی و قانونی پہلو
سرکاری میکانزم کا حصہ: محکمہ اوقاف صوبائی حکومت کا ایک انتظامی یونٹ ہے جو مذہبی امور، وقف کی جائدادوں اور فلاحی منصوبوں کی نگرانی کرتا ہے۔ اقلیتوں تک فلاحی خدمات (جیسے صحت، تعلیم، مالی امداد) پہنچانے میں اس کی سرگرمیوں کا تعلق بنیادی طور پر سرکاری ڈھانچے کے تحت وسائل کی تقسیم سے ہے .
دستوری ذمہ داری : پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 20, 36 اور 38 کے تحت اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے۔ محکمہ اوقاف کو ان ہدایات پر عمل درآمد کا فریضہ سونپا جا سکتا ہے .
اقلیتوں کے خدشات: تاثرات کی بنیادیں
تبلیغی سرگرمیوں کا شبہ: محکمہ اوقاف کی زیر نگرانی چلنے والے فلاحی اداروں (جیسے اسکول، ہسپتال) میں اسلامی تعلیمات یا دعوتی مواد شامل ہونے کی اطلاعات ہیں۔ اس سے اقلیتی برادریوں میں یہ خدشہ پیدا ہوتا ہے کہ امداد “مذہبی تبدیلی” کا ذریعہ بن رہی ہے .
حکومت کے موقف اور عملی چیلنجز
سرکاری بیانات: کے پی کے حکام بارہا وضاحت کر چکے ہیں کہ محکمہ اوقاف کا کردار “تبلیغ” نہیں بلکہ “خدمات رسانی” ہے۔ وزیراعظم پاکستان نے بھی 11 اگست 2023 کے پیغام میں اقلیتوں کو “قوم کا بنیادی حصہ” قرار دیتے ہوئے ان کے حقوق کے تحفظ کا عزم دہرایا .
عمل درآمد کی خامیاں: تاہم، صوبائی سطح پر نگرانی کے فقدان، پولیس کی غیر جانبدارانہ کارروائی نہ کرنے، اور انتہا پسند گروہوں کے دباؤ کے باعث اقلیتوں کے خدشات دور نہیں ہو پا رہے .
بہتر عمل کے لیے سفارشات
غیر جانبدار اداروں کی تشکیل: سپریم کورٹ پاکستان کے 2014 کے فیصلے کے مطابق، اقلیتی حقوق کے لیے قومی اقلیتی کمیشن جیسے آزاد اداروں کو خدمات کی نگرانی کا اختیار دیا جائے، نہ کہ محض محکمہ اوقاف کو .
شفافیت کا فروغ: فلاحی منصوبوں کے معاہدوں میں واضح شرائط شامل کی جائیں، جن میں تبلیغی سرگرمیوں کی ممانعت اور اقلیتی نمائندوں کی نگرانی شامل ہو
تعلیمی اصلاحات: تعلیمی نصاب میں مذہبی رواداری کو شامل کرکے نوجوان نسل میں برداشت کا جذبہ پروان چڑھایا جائے، جیسا کہ سپریم کورٹ نے 2014 میں تجویز کیا تھا .
اس سلسلے میں قومی اقلیتی کمیشن (2025ء میں قائم) کی کارکردگی فیصلہ کن ثابت ہو سکتی ہے، بشرطیکہ اسے اختیارات اور وسائل فراہم کیے جائیں .
(اقلیتی طلبہ کی امداد، بیواؤں/یتیموں کی شادیوں کی تقریبات) میں محکمہ اوقاف کے مرکزی کردار کے حوالے سے اقلیتی برادریوں میں پائے جانے والے خدشات درج ذیل نکات کی روشنی میں سمجھے جا سکتے ہیں:
مزہبی لیبل” کا نفسیاتی اثر
امداد پر مذہبی مہر: جب تمام فلاحی سرگرمیاں محکمہ اوقاف (جو بنیادی طور پر اسلامی وقف اور شرعی امور سے منسلک ہے) کے تحت انجام دی جائیں، تو یہ غیرارادی طور پر یہ تاثر دیتا ہے کہ امداد “مذہب کی عطیہ” ہے۔ مثال کے طور پر شادی کی تقریب اگر مسجد یا مدرسے کے احاطے میں ہو، جہاں اسلامی بینرز آویزاں ہوں، تو یہ اقلیتوں کو ثانوی درجے کا شہری محسوس کرا سکتا ہے۔
تاریخی تناظر: پاکستان میں ماضی میں ایسے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جہاں فلاحی تقاریب میں دعوتِ اسلامی یا مذہبی لٹریچر تقسیم کیا گیا، جس سے “تبدیلِ مذہب کے خدشات” کو تقویت ملی ہے۔
اقلیتی شناخت کا اصولی مسئلہ
تشخص کا انحطاط: ہندو، سکھ، مسیحی برادریوں کی اپنی الگ مذہبی رسومات ہیں۔ جب ان کی فلاح (جیسے شادی) کسی ایسے ادارے کے زیرِ اہتمام ہو جو ان کے مذہبی علامات/رسم و رواج کو شامل نہ کرے، تو یہ ان کی ثقافتی خودمختاری کے احساس کو مجروح کرتا ہے۔
ڈیٹا کا تناقض: حکومتِ پاکستان کے 2023 کے اعدادوشمار کے مطابق، خیبر پختونخوا میں 0.8% آبادی غیرمسلم ہے۔ اگر ان کی تمام فلاحی سرگرمیاں اسلامی لیبل کے ساتھ ہوں، تو یہ دستورِ پاکستان کے آرٹیکل 36 (اقلیتوں کے تحفظ) کی روح کے منافی ہے۔
بین الاقوامی موازنہ: بہترین طرزِ عمل
پنجاب ماڈل: پنجاب حکومت نے 2022 میں محکمہ اقلیفی امور کو محکمہ اوقاف سے الگ کر دیا، جس کے بعد فلاحی منصوبے (تعلیمی اسکالرشپس، شادی گرانٹ) براہِ راست اقلیتی کمیونٹی لیڈروں کے مشاورت سے چلائے جاتے ہیں۔
بھارت کی مثال : بھارتی ریاست کیرلا میں “غیرمنافع بخش ٹرسٹ ایکٹ” کے تحت مسیحی مشنریز یا ہندو پوجاری خود فلاحی سرگرمیاں چلاتے ہیں، ریاست صرف گرانٹ فراہم کرتی ہے۔
حل کی راہ: ادارہ جاتی علیحدگی
فوری اقدام**: کے پی کے حکومت کو چاہیے کہ محکمہ اقلیتی امورکو محکمہ اوقاف سے الگ کرے، اور اس کے سربراہ کے عہدے پر متعلقہ اقلیتی برادری کا فرد تعینات کرے (سپریم کورٹ پاکستان کے 2014 کے فیصلے SC MR 2210 کی روشنی میں)فلاحی پراجیکٹس کا ڈیزائن : شادی گرانٹ یا اسکالرشپس کے لیے درخواستیں غیرمذہبی فارمیٹ میں ہوں، اور تقریبات کا انعقاد غیرمذہبی مقامات (ٹاؤن ہال، کمیونٹی سینٹر) پر کیا جائے۔نگرانی کا میکانزم : تمام منصوبوں کی نگرانی کے لیے صوبائی اقلیتی کمیشن قائم کیا جائے، جس میں 70% ارکان اقلیتی برادریوں سے منتخب ہوں۔
نتیجہ:
محکمہ اوقاف کا اقلیتوں کی فلاح میں براہِ راست کردار — چاہے نیت خیر ہی کیوں نہ ہو — نفسیاتی طور پر اقلیتوں کو “دوسرے درجے کا شہری” محسوس کراتا ہے، جس سے ان کی مذہبی شناخت مجروح ہوتی ہے۔ اس کا حل یہ نہیں کہ امداد بند کی جائے، بلکہ یہ ہے کہ امداد کا انتظام اقلیتوں کی ثقافتی حساسیتوں کے مطابق کیا جائے۔ پنجاب کے تجربے سے ثابت ہوتا ہے کہ ادارہ جاتی علیحدگی (اوقاف بمقابلہ اقلیتی امور) نہ صرف خدشات کم کرتی ہے بلکہ فلاح کی اثرپذیری بھی بڑھاتی ہے۔

Author

Editor Hum Daise
ADMINISTRATOR
PROFILE

Posts Carousel

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked with *

Latest Posts

Top Authors

Most Commented

Featured Videos

Author