Author Editor Hum Daise View all posts
لعذر اللہ رکھا ایڈووکیٹ
ریاست کی اساس میں سرحدیں،گورننس، دفاع،ادارے اور شہری شامل ھوتے ھیں جن میں سب سے اھم شہری ھوتے ھیں اور یہی شہری چناؤ سے سرکار بناتے ھیں جو ان کے حقوق کا تحفظ کرے ،ریاست کی مقدس کتاب کا آئین کہا جاتا ھے،سرکار ادارے عدلیہ اور شہری اسی آئین کے تابع ھوتے ھیں اور تحت چلتے ھیں کوئی بھی عہدہ یا ادارہ آئین سے بالاتر نہیں ھوتا اور آئین سے انحراف غداری ھے وہ کوئی عہدہ کرے یا کوئی ادارہ کرے ریاست کو کچھ غرض نہیں ھوتی کہ کون مسجد جاۓ گا کون چرچ اور کون مندر،کون نماز پڑھے گا اور کون روزہ رکھےگا ریاست کا کام ملک میں امن و امان کی صورتحال ٹھیک رکھنا، معیشت سنبھالنا شہریوں کو بنیادی سہولیات روزگار ،تعلیم، اور صحت مہیا کرنا ھے شہریوں کی عزت جان مال کی حفاظت کرنا انہیں اندرونی اور بیرونی دشمنوں کے شر سے بچانا ھے ۔اب آئین کا آرٹیکل 20 ھر شہری کو مذھبی آزادی کی گارنٹی دیتا ھے کہ ھر شہری اپنی مرضی سے اپنا مذھب اختیار کر سکتا ھے جو کہ ھر انسان کا بنیادی حق بھی ھے لیکن ھمارے ھاں صورتحال آئین کے اس آرٹیکل سے یکسر مختلف ھے مذھبی عدم توازن اس قدر بگڑا ھوا ھے کہ آئین کے تابع ایک ادارہ نادار کی اپنی پالیسی آئین سے متصادم ھے اور ایک کمزور اور ناتواں شہری تابش ناز اپنے آئینی حق کے لیے پندرہ سال تک انصاف کا دروازا کھٹکھٹاتی رھی کہ آئین کے آرٹیکل 20 کے مطابق اسے اپنی پسند کا مذھب اختیار کرنے کا حق حاصل ھے لیکن نادرا کی پالیسی آڑے آجاتی کہ کوئی غیر مسلم تو اسلام قبول کرکے بطور مسلم اپنا شناختی کارڈ بنوا سکتا ھے لیکن کوئی مسلمان کسی دوسرے مذھب کا شناختی کارڈ نہیں بنوا سکتا اور اگر کبھی ایسا کوئی کیس نادرا دفتر میں چلا جائے تو نادار کے اپنے ھی آفیشل اس شہری پر چڑھ دوڑتے ھیں اور سائل کو اپنی جان کے لالے پڑھ جاتے ھیں
اگر چہ آئین پاکستان میں کسی بھی مسلمان کا کسی دوسرے مذھب کو اختیار کرنا کوئی جرم نہ ھے لیکن معاشرتی طور پر اسے مرتد گردانا جاتا ھے اورگناہ کبیرہ تصور کیا جاتا ھے جس کی سنگین معاشرتی سزا اور اکثریتی معاشرے کا ایسے شخص کی طرف نفرت،حقارت اور تضحیک کی شدت بڑھ جاتی ھے اور ایسا شخص اور اسکا خاندان ساری زندگی خوف کے سائے تلے گزارنے پر مجبور ھو جاتا ھے اور لوگوں کو خوف کی وجہ سے اپنی مذھبی شناخت چھپا کر رکھنی پڑتی ھے ایسے میں تابش ناز کو ہائیکورٹ کی طرف سے ریلیف ھوا کا ایک تازا جھونکا ھے لاھور ہائیکورٹ نے نادرا کو ڈائریکشن جاری کی ھے کہ تابش ناز کو اسکی مسیحی شناخت اور مسیحی شوھر کے نام سے شناختی کارڈ جاری کیا۔ آئین کے آرٹیکل 25 میں لکھا ھے قانون کی نظر میں تمام شہری برابر حثیت کے حامل ھو نگے اور انہیں یکساں قانونی تحفظ حاصل ھوگا کاش آئین کے ان دو آرٹیکلز 20 اور 25 پر تھوڑا سا بھی عمل ھو جاۓ اور ادارے اپنی آئینی زمہ داری پوری کریں تو مذھبی توازن کچھ بہتر ھو سکتا ھے وگرنہ تو سارا وزن ترازو کے ایک ھی پلڑے میں ھے۔سلامت رھیں
Leave a Comment
Your email address will not be published. Required fields are marked with *