Author Hum Daise View all posts
تحریر :سنیل گلزار
حالیہ دنوں میں یہ دیکھا جا رہا ہے کے سوشل میڈیا استمال کرنے والوں لوگوں کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے اس کا اثر میری قوم پر کچھ زیادہ ہی نمایاں ہے ۔یوں تو میں خود بھی اس کااستعمال کرتا ہو لیکن میں نے اپنا ایک مقصد اور ڈائریکشن واضح کی ہوئی ہے ۔میرا اس تحریر لکھنے کا مقصد صرف اور صرف ایک ہے اپنی راے دینا اور لوگوں کو اس کی نشان دھی کروانا ہے -چونکہ میں کمو نٹی سروس پر کام کرتا ہوں اور میری کوشش ہوتی ہے کسی نہ کسی طرح سے اچھے کاموں میں اپنے نوجوانوں کو اگے بڑھنے کے لئے کوئی بہتر موقع فراہم کیا جائے۔یقین جانے میرا سینا چوڑا ہو جاتا ہے جب میں کسی مسیحی نوجوان کو دیکھتا ہو جو کے ملک پاکستان کی ترقی میں ہراول دستے کے طور پر کام کر رہا ہے اور مسیحی قوم کا نام روشن کر رہا ہے اس کی بہت ساری مثا لیں میرے سامنے ہیں جو ملک میں اپنا مقام رکھتے ہیں جیسے کے محکمہ پولیس ۔کسٹم ۔FIA.میڈیکل۔تدریس یعنی ٹیچرز ۔کچھ نوجوان اب بزنس کی طرف بھی بڑھ رہے ہیں اور کچھ سیکورٹی فورسز میں بھی اپنا رول ادا کر رہے ہیں اور کچھ نوجوان مذھبی تعلیم حاصل کر رہے ہیں جس کے بعد وه اس کو پرو فیشن کے طور پر جوائن کرتے ہیں جو ایک اچھی بات ہے ۔اب بات کرتے ہیں اپنے اصل مو ضوع پر آپ کو اوپر بتایا کتنے محتلف شعبہ جات میں نو جوان یہ کام کر رہے ہیں لیکن انکی تعداد بہت قلیل ہے اور اس کے بر عکس ان سے دس بیس یا پچاس نہیں سو گناہ زیادہ وه لوگ ہیں جو نہ تو اچھی تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور نہ ہی کوئی ہنر سیکھ رہے ہیں بس وہ سوشل میڈیا کی محتلف اپلکیشن کا استمال کر کے پیسہ کمانا چاہتے ہیں اور ایک بہترین مستقبل کی تلاش میں مگن ہیں مگر وه یہ نہیں جانتے کے اس سے انکی نیک نامی نہیں بلکے بد نا می ہو رہی ہے ۔مجھے آج یہ سب اس لئے لکھنا پڑ رہا ہے کے چند دن پھلے لاہور کے ایک نجی ہوٹل میں خاص طور پر ان کے لئے ایک تقریب منعقد کی گئی جو کے كرسمس سیزن کے سٹارٹ والے دن پر منعقد ہوئی جس کو کسی صاحب جو کے بیرون ملک مقیم ہیں انہوں نے منعقد کیا تھا جس میں سوشل میڈیا استمال کرنے والے چند لوگوں کو ایوارڈ دیے گے ہیں اور مزے کی بات تو یہ ہے اس پروگرام نہ تو کوئی جج تھا نہ کوئی جیوری جس کو دل چاہا پسند نہ پسند کی بنیاد پر خود ساحتہ طور پر ایوارڈ سے نواز دیاگیا ۔بات کرنے کا مقصد یہ ہے کیا میرا ہیرو اور میری یوتھ کا آئیڈیل یہی لوگ ہیں کیا ہم اپنی آنے والی نسل کو یہ پیغام دے رہے ہیں جو کے پھیلے ہی شارٹ کٹ کے چکر میں لگی ہوئی ہے جو کے تعلیم سے پھلے ہی دور ہیں جو محنت کرنے سے جی چراتی ہے ۔آج کل کے دور میں کیا کوئی چاہیے گا جہاں روز ایک نیا سوفٹ ویئر مارکیٹ میں لانچ کیا جا رہا ہے جہاں روز نت نئی ٹیکنالوجی متراف کروائی جا رہی ہے اور اس کے بر عکس کیا آپ یہ چاہے گے کے کسی برتن کے اندر پیر رکھ کر ناچنے والا آپ کے بچے کا آئیڈیل ہو ۔کوئی گھیلے بالوں سے ویڈو بناتی خاتون آپ کی بیٹی ۔بیوی یا بہن اس کو کاپی کرے اور آپ کی عزت کو سر بازار رسوا کرے ۔میں آج بہت دکھ سے یہ بات کر رہا ہوں ہم تعلیم کے میدان میں اوپن میرٹ پر ایڈمشن نہیں لے پا رہے ہم سپورٹس کے میدانوں میں بلکل زیرو ہیں صحت کا شحبہ جو کبھی ہماری میراث سمجھا جاتا تھا اب ہم وہاں بھی بامشکل نظر آ رہے ہیں لاہور جسے گنجان آباد شہر میں تقریبا ایک ملين مسیحی لوگ آباد ہیں جن میں گورمنٹ سرونٹس کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے محظ ایک سینیٹری ورکرز کی جاب ہے جس پر انکی تحیناتی تھوڑی آسانی سے ہو جاتی ہے ویسے آج کل لاہور میں سینیٹری ورکرز کی کچھ آسامیاں نکلی ہوئی ہیں ایسے ایسے خوبصورت مسیحی نوجوان ان قطاروں میں نظر آ رہیں ہیں جو شکل صورت سے کسی بھی فلمی ہیرو سے کم نظر نہیں آ رہے تھے انکی پستی کی وجہ تعلیم کا حاصل نہ کرنا ہے ۔وه قوم کبھی بھی ترقی نہیں کرتی جو اپنے ہیروز کو فراموش کرتی ہے اور کیاہم اس چیز کو پرموٹ کر کے اپنے آنے والی نسل کو یہ کون سے ہیرو دیکھا رہے ہیں اب تو مسیحی عبادتوں اور کرسمس کے پروگراموں میں بھی ایسے ہی لوگوں کو مدعو کیا جاتا ہے اور اسٹیج پر بلوا کر جہاں خدا کی عبادت اور پرستش کی جاتی ہے انکو سوسائٹی کا رول ماڈل بنا کر لوگوں کے سامنے پیش کیا جاتا ہے میری آپ دوستوں سے گزارش ہے اس تحریر پر تنقید ضرور کریں مگر حقیقت پسند بنے اور ان چیزوں کا اپنے انے والی نسلوں میں منتقل نہ ہونے دیں نہیں تو انے والے چند سالوں میں ہر گھر میں بھٹی برانڈ ۔ کوئی بلی ۔کوئی غونڈی رن 🙄 وغیرہ ہی نظر آ ئیں گے ۔اپنے بچوں کو سیسل چو ہدری ۔روتھ فاو ۔ روبن یامین ۔زکریا یوسف ۔ماریا شمون۔ نیلم خان ۔چوہدری عمون .شان مسیح ۔پروفیسر آرا پطرس۔ سسٹر زیف ۔میری گل ۔ جیمز رحمت ۔کامل شمشاد ۔ سیمسن سلامت ۔اکمل بھٹی ۔ڈاکٹر مونس ۔سیموئیل پیارا ۔ ڈاکٹر احسن الیاس ۔ذیشان لبھا ۔ وغیرہ بنا نے کی کوشش کریں ۔ اور انکو ان کی خدمت اور اس کے پیچھے انکی کڑی محنت کا ذکر کریں کے کیسے مشکل حالات سے لڑ کر یہ لوگ کامیاب ہوئے ہیں اور اپنے ملک میں مسیحی قوم کا نام سر بلند کیا ہے اور کر رہے ہیں ۔
Leave a Comment
Your email address will not be published. Required fields are marked with *