مدیراعلی: ندیم اجمل عدیم


حافظ آباد : زہر خوانی سے بچوں کی ہلاکت انسانی غفلت یا سازش

حافظ آباد : زہر خوانی سے بچوں کی ہلاکت انسانی غفلت یا سازش

  Author Editor Hum Daise View all posts

 

سمیر اجمل
سال 2013 فیصل آباد شفٹ ہونے کے بعد میں تقرییاٌ روزانہ ہی محکمہ صحت کے دفتر جایا کرتا تھا اس وقت خبروں کے حوالے سے مقابلہ بازی کا رحجان زیادہ تھا‘ ایکسکلیوز خبر کا حصول ہر رپورٹر کی خواہش ہوتی تھی میں بھی اسی بھاگ دوڑ میں رہتا تھا ان دنوں میں محکمہ صحت کی طرف سے کتا مار مہم شروع کی گئی تھی محکمہ صحت کے اہلکار آوارہ کتوں کو مارنے کے لئے رات کے وقت کچلہ(کتوں کو مارنے کا زہر) مٹھائی یا کسی اور چیز میں ڈال کر گلیوں میں پھینک جاتے تھے جس سے کتے تو مرجاتے مگر ان کے مردہ جسم گلیوں میں پڑے رہتے جس سے نہ صرف تعفن پھیلتا تھا بلکہ بیماریاں پھیلنے کا خدشہ رہتا تھا میں اس حوالے سے تواتر سے خبریں دے رہا تو جو شائع بھی ہو رہی تھی جس کی وجہ سے اس (کتا مار) مہم سے وابستہ ملازمین مجھے ذاتی طور پر جاننے لگ تھے ایک دن محکمہ صحت کے دفتر میں ایک اہلکار نے مجھے بتایا کہ اس کے پاس کچھ معلومات ہیں جو وہ چاہتا ہے کہ شائع ہوں مگر اس کا نام نہ آئے جس پر میں نے اس کو اعتماد میں لیتے ہوئے کہا کہ اس کانام خبر میں نہیں آئے گا تو اس نے بتایا کہ اس کا ایک ساتھی کچھ عرصہ پہلے اس اس مہم کی وجہ سے جان کی بازی ہار چکا ہے کیونکہ جو کچلہ کتوں کو مارنے کے لئے انہیں دیا جاتاہے اسے ہاتھ کے ساتھ برفی یا مٹھائی میں مکس کیا جاتاہے اور جو اہلکار جان سے گیا ہے اس نے کچلا کو برفی میں شامل کرنے کے بعد اسی ہاتھ سے کوئی چیز کھائی تھی جس کے بعد وہ بیمار ہوا تھا اور کچھ عرصے بعد وہ چلا بسا تھا۔خبر بہت اہم تھی میں نے اس پر کام شروع کیا اس بات کی تصدیق تو ہوگئی کہ محکمہ صحت کا ایک اہلکا ر بیماری کی وجہ سے فوت ہوا ہے اس کے لواحقین دبے لفظوں میں انہیں خدشات کا اظہار کررہے تھے جو مذکورہ اہلکار نے بتائے تھے مگر وہ اس ضمن میں مدعی بننے کے لئے تیار نہیں تھے دوسری طرف جس اہلکار نے مجھے معلومات دیں تھی وہ افسران کے خلاف پروپیگنڈہ‘ درخواست بازی اور اس طرح کی دیگر کارووائی کی وجہ سے مشہور تھا جس کی وجہ سے میں نے اس خبر پر مزید کام نہیں کیا تھا کیونکہ مجھے علم تھا کہ مدعی کے نہ ہونے کی صورت میں خبر کی اشاعت ممکن نہیں اور میں خبر کے حوالے سے تھوڑا کنفیوز بھی تھا مگر رواں ہفتہ کے دوران حافظ آباد میں جو واقعہ پیش آیا ہے اس کو دیکھ کر مجھے لگتاہے کہ وہ خبر جس کے بارے میں میں کنفیوز تھا درست ہوسکتی ہے‘ حافظ آباد میں 9کم سن بچے جن کا تعلق مسیحی برادری سے تھا زہریلی شے خوانے سے ہسپتال پہنچ گئے تھے جن میں تین بچوں کی موت واقع ہوگئی تھی۔ اس حوالے سے جو ابتدائی معلومات موصول ہوئیں ان میں بتایا گیا کہ کوئی نامعلوم شخص رکشہ میں آکر بچوں کو مٹھائی دے کر گیا تھا جسے کھانے کے بعد تین بچوں کی موت واقع ہوگئی جبکہ باقی ہسپتال پہنچ گئے تھے‘ ا یسیخبریں منظر عام پر آنے کے بعد یہ معاملہ اسمبلی تک بھی پہنچ گیا مسیحوں کے نمائندگان (پارلیمنٹرینز) کی طرف سے معاملے کی شفاف انکوائری کا مطالبہ کیا گیا جبکہ سوشل میڈیا پر بھی اس حوالے سے یہی خبریں گردش کرنے لگی کہ مسیحوں کی آبادی میں جا کر مٹھائی بانٹنا بڑی سازش ہوسکتی ہے مگر بعدازں متاثرہ بچوں میں سے کچھ کے ہوش میں آنے کے بعد معاملے نے دوسرا رخ اختیار کر لیا۔ متاثرہ بچوں نے ہوش میں آکر بتایا کہ انہوں نے رکشہ میں پڑی ہوئی مٹھائی اٹھا کر کھائی تھی جس کے بعد وہ بے ہوش ہوگئے۔ پولیس اور دیگر اداروں کی جانب سے تحقیقات پر پتہ چلا کہ یہ رکشہ ٹی ایم اے کے ایک ملازم کا تھا جس نے کتوں کو مارے کے لئے کچلہ ملی مٹھائی رکشہ میں رکھی ہوئی تھی وہ رکشہ کسی کے گھر کے باہر کھڑا کرکے اند ر گیا تو بچوں نے وہ مٹھائی اٹھا کر کھا لی جس سے ان کی حالت بگڑ گئی اور تین بچے موت کے منہ میں چلے گئے‘ بظاہر یہ واقع انسانی غفلت کے نیتجے میں ہونے والا ایک حادثہ ہی معلوم ہوتا ہے مگریہ حادثہ اپنے پیچھے کئی سوالات کو چھوڑ گیا ہے جن کے جواب ملنا ضروری ہے۔ ہائیکورٹ کی جانب سے کتوں کو مارنے پر پابندی عائد کی گئی ہے اس حوالے سے جو احکامات جاری کئے گئے تھے ان میں کہا گیا تھا کہ آوارہ کتوں کو مارنے کے بجائے ان کی نس بندی کی جائے ان احکامات میں موجودگی میں ٹی ایم اے کی جانب سے کتا مار مہم کیسے شروع کی گئی ہے‘ اور کچلا کس قانون کے تحت ملازمین کو فراہم کیا گیاکہ وہ اسے کتوں کو مارنے کے لئے استعمال کریں؟کتوں کو تلف کرنے کے حوالے سے جو ایس او پیز بنائی گئی ہیں ان کے مطابق ٹی ایم اے کے ملازمین کا کام کتوں کو پکڑ کر محکمہ صحت کے حوالے کرنا ہے نس بندی کرنے کی ذمہ داری ان کی ہے پھر کس طرح سے ٹی ایم اے کے ملازموں نے ازخود کتوں کو تلف کرنے کا فیصلہ کرلیا؟ جب پنجاب بھر میں کتوں کے مارنے پر پابندی عائد ہے تو حافظ آباد کے ٹی ایم اے کے ملازموں پاس یہ کچلا کہاں سے آیا اور کس افسر کے کہنے پر یہ کچلا کتوں کو ڈالنے کے لئے لے جائے گیا تھا؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات ملنا ضروری ہیں کیونکہ انہیں جوابات کی روشنی میں اس حادثے کے ذمہ داروں کا تعین کیا جاسکے گا۔

Author

1 comment
Editor Hum Daise
ADMINISTRATOR
PROFILE

Posts Carousel

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked with *

1 Comment

  • Davis Afzal
    April 23, 2025, 9:15 am

    Awesome Column

    REPLY

Latest Posts

Top Authors

Most Commented

Featured Videos

Author