Author Editor Hum Daise View all posts
سمیر اجمل
3مئی کو صحافت کے دن کے موقع پر جہاں دنیا بھر میں تقریبات کا انعقاد ہورہا ہے وہاں پر پاکستان میں صحافیو ں سڑکوں پر ہیں کوئی احتجاج کررہا ہے تو کوئی ریلی نکال رہے جس کا مقصد پیکا ایکٹ جیسے کالے قوانین اور ان اقدامات کے خلاف آواز بلند کرنا ہے جن کے باعث صحافی شدید خطرات میں ہیں۔پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جو صحافیوں کے لئے خطرناک اور غیر محفوظ سمجھے جاتے ہیں۔مختلف اداروں کی جانب سے اس حوالے سے جو اعداد و شمار جاری کئے گئے ہیں وہ پریشان کن ہے۔ پاکستان پریس فاؤنڈیشن کی رپورٹ کے مطابق سال کا آغاز جنوری میں پاکستان الیکٹرانک کرائمز ترمیمی ایکٹ 2025 کی منظوری سے ہوا، جس کی پہلے ہی سے مخالفت کی جا رہی تھی۔ اس قانون نے صحافیوں کے لیے قانونی نتائج کے خدشات کو مزید سنگین بنا دیا، خاص طور پر آن لائن رپورٹنگ کے حوالے سے۔ اس کے بعد سے ترمیم شدہ سائبر کرائم قانون کی مختلف دفعات کے تحت میڈیا سے وابستہ افراد کے خلاف فوجداری مقدمات درج کیے گئے، جن میں دفعہ 26-اے بھی شامل ہے، جو جھوٹی یا گمراہ کن معلومات سے متعلق ہے اور تین سال تک قید، دو ملین روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں مقرر کرتی ہے۔ٹی وی نشریاتی اداروں پر گزشتہ برسوں میں سخت ضابطہ بندی اور میڈیا کارکنوں کے خلاف تشدد کے باعث جو خاموشی مسلط کی گئی، اب وہی صورتحال آن لائن اظہار پر بھی مسلط کی جا رہی ہے، جس سے آزادانہ رپورٹنگ کی گنجائش مزید کم ہو رہی ہے۔ 2024-25 کے دوران وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (FIA) سمیت ریاستی اداروں کی کارروائیاں احتساب کے فقدان کے باعث ایک خطرناک مثال بن چکی ہیں۔دوسری طرف جسمانی تشدد، گرفتاریوں، حراست، دھمکیوں اور دیگر سزاؤں جیسے اشتہارات کی معطلی بھی میڈیا کو دبانے کے اوزار کے طور پر استعمال ہو رہی ہیں۔2025 میں پاکستان پریس فاؤنڈیشن (PPF) نے جنوری تا اپریل کے دوران کم از کم 34 واقعات ریکارڈ کیے، جن میں درج ذیل شامل ہیں ‘سات مقدمات کا اندراج، ایک ہتکِ عزت کا نوٹس، FIA کی جانب سے تین طلبی نوٹس، دو گرفتاریاں، چار حراستیں، دو اغواء، چھ حملے اور دو مارپیٹ کے واقعات، دو پراپرٹی پر حملے بشمول ایک چھاپہ، تین دھمکیاں جن میں قانونی کارروائی اور اہلِ خانہ کو دھمکیاں شامل ہیں، اور دو آن لائن ہراسانی کے کیسز شامل ہیں-مارچ میں دو صحافیوں رفتار کے سی ای او فرحان ملک اور اسلام آباد کے صحافی وحید مراد کی گرفتاری FIA کے سخت رویے کی واضح مثال ہے۔ فرحان ملک کو زبانی طلبی کے بعد دفتر میں پیش ہونے پر گرفتار کیا گیا، جبکہ وحید مراد کو ان کے گھر سے اٹھایا گیا اور ان کے خلاف فوجداری شکایت درج کی گئی۔اس کے ساتھ ساتھ مخصوص میڈیا اداروں کے خلاف اشتہارات کی بندش جیسے اقدامات بھی کیے گئے۔ انگلش روزنامہ ڈان کو اشتہارات سے محروم کرنے اور روزنامہ صحافت کو وزارتِ اطلاعات کی جانب سے اشتہارات کی بندش جیسے واقعات مالی طور پر میڈیا اداروں کو کمزور کرنے کی کوششوں کو اجاگر کرتے ہیں۔2024 میں، جو کہ انتخابی سال تھا، اظہارِ رائے پر قابو پانے کے لیے سیاسی احتجاج، انٹرنیٹ کی بندش، اور ایسے قوانین و ضوابط متعارف کروائے گئے جنہوں نے اظہار پر نگرانی بڑھا دی۔ جنوری تا دسمبر 2024 کے دوران، PPF نے کم از کم 168 حملے ریکارڈ کیے، جن میں دو صحافیوں کے قتل، 76 جسمانی حملے، چار اغوا، 12 املاک پر حملے، پانچ گرفتاریاں، 12 حراستیں، 15 مقدمات کا اندراج، FIA کی 8 کارروائیاں اور دو دیگر قانونی اقدامات، دو افراد کے ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ECL) میں نام ڈالنے، 15 آن لائن ہراسانی، پانچ دھمکیاں، اور 31 سینسرشپ کے واقعات شامل ہیں۔ ان میں 19 انٹرنیٹ، موبائل یا سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی معطلی جیسے اقدامات بھی شامل ہیں جن میں X (سابقہ ٹوئٹر) کی بندش بھی شامل ہے، پیمرا کے چار سخت احکامات، اور آٹھ دیگر اقدامات جنہیں سینسرشپ کے زمرے میں شمار کیا جا سکتا ہے؛ جب کہ خیبرپختونخوا کے وزیرِ اعلیٰ کی طرف سے صحافیوں کے خلاف بیانات بھی سامنے آئے۔2024 میں انٹرنیٹ، موبائل اور سوشل میڈیا تک رسائی میں خلل انتہائی تشویش ناک حد تک بڑھ گیا، جو معلومات تک شہریوں کی رسائی کو محدود کرنے کا باعث بنا۔ رواں سال بھی یہ رجحانات برقرار نظر آ رہے ہیں۔ پاہلگام حملے کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی میں اضافے کے نتیجے میں بھارتی حکومت نے وزارت داخلہ کی سفارش پر 16 پاکستانی یوٹیوب چینلز پر پابندی عائد کر دی ہے فریڈم نیٹ ورک کی سالانہ فریڈم آف ایکسپریشن اینڈ میڈیا فریڈم رپورٹ برائے 2025 میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کا میڈیا اپنی بقا کے خطرے اور بڑھتی ہوئی پابندیوں کے ماحول، بگڑتی ہوئی سیکیورٹی اور ملازمتوں کے تحفظ، میڈیا اور اس کے پیشہ ور افراد کی پیشہ ورانہ سالمیت کو درپیش اہم مشکلات کے درمیان ایک چوراہے پر کھڑا ہے۔
Leave a Comment
Your email address will not be published. Required fields are marked with *