مدیراعلی: ندیم اجمل عدیم


موسیماتی تبد یلیوں سے متاثرہ ملکہ کوہسار(مری)کے مسائل

موسیماتی تبد یلیوں سے متاثرہ ملکہ کوہسار(مری)کے مسائل

  Author Editor Hum Daise View all posts

 

سمیر اجمل

مری جسے کہ ملکہ کوہسار بھی کہا جاتاہے کہ پنجاب کشمیر اور ہزارہ کے سنگم پر واقع پنجاب کا ایک سیاحتی مقام ہے جسے کہ 2022میں ضلع کا درجہ دیا گیا تھا۔مری دنیا بھر کے سیاحوں سمیت پاکستان کے شہریوں کے لئے بھی خاص کشش رکھنے والا علاقہ ہے جس وقت برصغیر پاک و ہند انگریزوں کے تسلط میں تھا انگریزحکمرانوں خاص کر فوجی افسران نے اس علاقے کی آب و ہوا اور حدود اربعہ کودیکھتے ہوئے اسے فوجی مقاصد اور اپنی رہائش کے لئے منتحب کیا تھا جس کے بعد یہاں پر تیزی سے ترقیاتی کام کئے گئے‘ انگریز فوجی افسران نے یہاں عالیشان عمارات‘ سٹیٹ آف دی آرٹ عبادت گاہیں (چرچز) اور دیگر تعمیرات کرائیں جو آج بھی موجود ہیں‘ بنیادی سہولیات جن میں پانی کی فراہمی‘ آمد ورفت کے لئے سڑکیں شامل ہیں کی تعمیر 1890میں ہی مکمل کرلی گئی تھی جبکہ پانی کی فراہمی کے لئے مکیش پوری ہائٹس (جسے کہ اب مشک پوری پہاڑ کہا جاتا ہے) سے 1891 میں واٹر سپلائی لائن بچھائی گئی تھی جو کہ آج بھی کارآمد ہے‘مری کا شمار دنیا کے ان حسین مقامات میں ہوتاہے جہاں پر فطرت کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ قدرتی حسن جس میں سرسبز و شاداب جنگلات‘ آبشاریں‘ پانی کے چشمے اور وہ سب نظارے مری میں موجود ہیں جن کو دیکھنے سے فطرت کی رنگینوں سے آشنائی ہوسکتی ہے۔ مگر افسوس کہ پر فضا مقام بھی اب موسیماتی تبدیلیوں کے زد میں ہے‘ سرسبز جنگلات اپنا حسن کھوتے جارہے ہیں‘ وہ پرفضا آب و ہوا جس کے لئے پاکستان کے مختلف علاقوں سمیت دنیا بھر سے سیاح مری آتے تھے اب اس میں وہ کشش باقی نہیں رہی ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ مری کی آب وہوا اور درجہ حرارت بھی دوسرے شہروں جیسا ہوچکا ہے تو یہ غلط نہیں ہوگا۔گزشتہ ہفتے ایک ٹریننگ کے سلسلے مجھے مری میں تین روز قیام کا کرنا پڑا‘ ا س سے قبل بھی میں متعدد بارمری آچکا ہوں مگر اس بار مری میں مجھے جس طرح کے ماحول اور تجربے کا سامنا کرنا پڑا ہے یہ کسی طور سود مند نہیں رہا ہے۔ جون کے مہینے میں گرم علاقوں سے لوگ کم درجہ حرارت اور پر فضا آب ہو ا کو انجوائے کرنے مری آتے ہیں مگر اس وزٹ کے دوران میں نے یہ محسوس کیا ہے کہ یہ سب اب مری میں دسیتاب نہیں ہے‘ مری میں بھی اب اے سی چلا کر روم ٹمپریچر کو کنٹرول کرنے کی ضرورت پڑتی ہے‘اور مری کا درجہ حرارت جو کہ ان دنو ں میں 22سے 28درجہ ہوتا تھا اب 30سے 39تک پہنچ چکا ہے۔ حسین جنگلات اور نظارے جو کبھی آنکھوں کو تراوت بخشتے تھے وہ اب بلند و بالا عمارتوں کے پیچھے چھپ چکے ہیں‘ روایتی ہریالی کی جگہ اب عمارتی ملبے‘ اینٹوں اور پتھروں اورگارے کے ڈھیروں نے لے لی ہیں یہاں تک مری میں چہچانے والے پرندے اور شرارتیں کرنے والے بند ر بھی کم کم نظر آتے ہیں اور اس بات کا تذکرہ میرے ساتھ ٹریننگ میں موجود کچھ اور ساتھیوں (صحافیوں) نے بھی کیا کہ مری میں چہل قدمی کرتے ہوئے جو نظارے‘ پرندوں کے چہچانے کی آوازیں سننے کو ملتی تھیں اب نہیں ہیں اس کی ایک بڑی وجہ تعمیر کی گئی بلند بانگ عمارات اور دوسری بد انتظامی بھی ہے۔ مری کا مال روڈ جوکہ پیل چلنے والوں کے لئے ایک بہترین تفریح گاہ سمجھا جاتا تھاتجاوزات کی زد میں ہے تجاوزات کی وجہ سے وہاں اب پیدل چلنا بھی دشوار ہوگیا ہے۔ کہیں ہوٹلز اور ریسٹورنٹس والوں نے اپنی حدود کراس کرتے ہوئے سڑک پر قبضہ کر رکھا ہے تو کہیں پر چائے فروشوں‘ٹھیلہ لگانے والوں نے روڈ کو اپنی جاگیر بنا رکھا ہے یہی نہیں کچھ مقامات پر تو بچوں کے جھولوں والوں نے بھی جہاں تک ہوسکتا ہے اس کار خیر میں حصہ ڈال رکھا ہے اور رہی سہی کسر ہاتھ گاڑیاں چلانے والوں نے پوری کردی ہیں جوکہ چھوٹی چھوٹی گاڑیو ں پر لوگوں کو بٹھا کر مال روڈ پر کھینچتے نظر آتے ہیں‘یقین جانیں کھوے سے کھوے چھلتا نظر آتاہے اور اگر آپ مال روڈ پر نکل آتے ہیں تو دل گھبرانے کے ساتھ ساتھ یہی ڈر لگا رہتا ہے کہ ابھی کسی سے ٹکر ہو جائے گی اور اس کے بعد پتا نہیں کیا ہوگا۔ بات یہاں تک نہیں اصل مسلہ تو اس بد انتظامی کا ہے جو کہ انتظامی معاملات درست کرنے کے نام پر شروع کی گئی ہے۔ اگر خدانخواستہ آپ ہائی ایس وین (جو کہ ہوٹلز کی جانب سے فراہم کی جاتی ہیں) یا کسی اور بڑی گاڑی میں مری میں تفریح کے لئے آتے ہیں تو سب سے پہلے آپ کو یہ بورڈ دیکھنے کو ملیں گے کہ بڑی گاڑیوں کا داخلہ رات 12بجے تک ممنوع ہے۔ اس کے بعد آپ گاڑی لیکر گھومتے رہیں کبھی اوپر‘ کبھی نیچے‘ کبھی دائیں اور کبھی بائیں مجال ہے ٹریفک پولیس یا انتظامیہ کا کوئی افسر آپ کو بتا دے کہ گاڑی کہاں پارک کی جا سکتی ہے اور کیسے آپ اوپر جاسکتے ہیں۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ بڑی گاڑیوں کے داخلے پر پابندی کے باعث مری میں داخل ہونے والی چھوٹی گاڑیوں کے لئے آسانی ہوجائے مگر معاملہ اس کے برعکس ہے بڑی گاڑیوں کے داخلے پر پابندی کے باوجود چھوٹی گاڑیوں کو مری میں داخل ہو کر منزل مقصود پر پہنچنے میں دو سے اڑھائی گھنٹے لگ جاتے ہیں اور اس دوران جو خواری ہوتی ہے وہ ناقابل بیان ہے۔اس حوالے انتظامیہ کا موقف ہے کہ مری میں سیاحوں کا رش بہت زیادہ ہوتا ہے اس حوالے سے مسائل ہیں چلیں مان لیا جائے کہ سیاحوں کا رش زیادہ ہوتاہے اس وجہ سے مسائل ہوتے ہیں مگر کیا اس کے لئے پلاننگ نہیں کی جاسکتی ہے۔کیا مری سے ہٹ کر پارکنگ سائٹس نہیں بنائی جا سکتی جہاں سے گاڑیاں پارک کرواکے الیکٹرک وہیکل (چھوٹی گاڑیوں) کے ذریعے سیاحوں کو مال روڈ اور دیگر مقامات تک پہنچایا جائے کیونکہ مری میں سب سے بڑا مسلہ پارکنگ کا ہے۔مقامی افراد یا کاروباری لوگوں نے یہاں پر جو پارکنگ سائٹس بنا رکھی ہیں وہا ں پر گاڑی کھڑے کرنے کا کرایہ ہزاروں روپے وصول کیا جاتاہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں‘ پنجاب حکومت کے لئے یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ مری جیسا صحت افزاء اور پرفضا مقام جو کہ موسیماتی تبدیلیو ں ا ور بد انتظامی کی وجہ سے اپنی ہیت اور کشش کھوتا جا رہا ہے اس کی بحالی کے لئے اگر فوری اقدمات نہ کئے گئے تو بعید نہیں کہ اس کا حال بھی پنجاب کے دیگر شہروں جیسا ہوجائے جہاں پرآبادی‘رش اور بد انتظامی کی وجہ سے شہریوں کے لئے سانس لینا بھی محال ہوتا جا رہا ہے۔

Author

Editor Hum Daise
ADMINISTRATOR
PROFILE

Posts Carousel

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked with *

Latest Posts

Top Authors

Most Commented

Featured Videos

Author