Author Editor Hum Daise View all posts
سرور سکندر
مشرق وسطیٰ اس وقت آگ کے دہانے پر کھڑا ہے. ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری تنازع میں آج ایک نیا موڑ اُس وقت آیا جب امریکہ نے عملی طور پر جنگ میں انٹری دے دی. امریکی بی ٹو اسٹلتھ طیاروں کی مبینہ موجودگی اور ان کے ذریعے ایران کے اندر مخصوص اہداف کو نشانہ بنانا عالمی سیاست کا ایسا قدم ہے جس نے روس چین اور دنیا بھر کی مسلم ریاستوں کو گہری تشویش میں مبتلا کر دیا ہے یہ کاروائی ایک نئی عالمی جنگ کے خدشات کو جنم دے چکی ہے جہاں ہر لمحہ حالات بگڑتے جا رہے ہیں
ایران نے امریکی حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے نہ صرف عالمی سطح پر احتجاج ریکارڈ کرایا ہے بلکہ مشرق وسطیٰ میں امریکی اہداف کو نشانہ بنانے کی دھمکی بھی دے دی ہے ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے جن تنصیبات پر حملہ کیا گیا ان مقامات سے افسودہ یورینیم کئی ماہ پہلے ہی محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا گیا تھا اس بیان کے ذریعے ایران نے دشمن کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ نہ صرف تیار ہے بلکہ جوابی کارروائی کے لیے پوری طرح پُرعزم بھی ہے-دوسری جانب پاکستان نے بھی امریکی حملے کی کھل کر مذمت کی ہے وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ایسے اقدامات خطے کے امن کے لیے خطرہ ہیں اور بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہیں پاکستان نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس جارحیت کا فوری نوٹس لے تاکہ حالات مزید نہ بگڑیں.
یہ حقیقت اب کھل کر سامنے آ گئی ہے کہ اسرائیل کی حالیہ جارحیت دراصل ایک امریکی منصوبہ ہے جس کے تحت مشرق وسطیٰ میں نئی صف بندیاں کی جا رہی ہیں امریکی انٹیلیجنس چیف کے اُس بیان کو یاد رکھا جانا چاہیے جس میں کہا گیا تھا کہ ایران ایٹمی ہتھیار بنانے کے قریب نہیں ہے۔ مگر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ہی ادارے کی رائے کو مسترد کر کے نہ صرف ایران پر پابندیاں بڑھائیں بلکہ جنگ کی بنیاد بھی رکھ دی آج وہی ٹرمپ جنہیں پاکستان سمیت مختلف ممالک کی طرف سے نوبل امن انعام کے لیے نامزد کیا گیا ایک نئی جنگ کا عملی حصہ بن چکے ہیں
یہ حیران کن تضاد عالمی نظام کی حقیقت کو بے نقاب کرتا ہے جہاں طاقتور ممالک امن کی بات تو کرتے ہیں مگر ان کے ہاتھوں میں تلوار ہوتی ہے امریکہ کی حالیہ مداخلت نے ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ بین الاقوامی اصول صرف کمزور ممالک کے لیے ہوتے ہیں طاقتور اپنے مفادات کی خاطر کوئی بھی قانون توڑنے سے دریغ نہیں کرتے
سب سے افسوسناک پہلو مسلم دنیا کی مجموعی خاموشی ہے۔ چند رسمی بیانات کے سوا عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ایران کو تنہا کرنے کی کوشش دراصل پوری مسلم دنیا کو کمزور کرنے کی منظم سازش ہے اگر آج بھی مسلم ممالک بیدار نہ ہوئے تو یہ آگ ان کے اپنے دامن تک پہنچنے میں دیر نہیں لگائے گی
یہ جنگ اب صرف ایران اور اسرائیل کے درمیان محدود نہیں رہی امریکہ کی براہ راست شمولیت اور ایرانی ردعمل نے اسے ایک بین الاقوامی بحران میں تبدیل کر دیا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی برادری فوری طور پر مداخلت کرے ورنہ یہ جنگ مستقبل کی ایک بڑی تباہی کی بنیاد بن سکتی ہے، جو صرف مشرق وسطیٰ ہی نہیں پوری دنیا کے امن کو نگل سکتی ہے
Leave a Comment
Your email address will not be published. Required fields are marked with *