مدیراعلی: ندیم اجمل عدیم


ذہنی صحت، غربت اور ہمارے معاشرتی رویے

ذہنی صحت، غربت اور ہمارے معاشرتی رویے

  نورالعین Author Editor Hum Daise View all posts

 

نورالعین

غربت، بے روزگاری اور معاشی عدم استحکام ،اس وقت پاکستان کے بڑے مسائل بن چکے ہیں۔ بلکہ اب تو یہ روز مرہ زندگی کا حصہ ہی سمجھے جانے لگے ہیں ۔ اس پر قابو پانے کے لئے حکمرانوں کے دعوے صرف تقریروں کی حد تک محدود ہیں ۔ ان مسائل نے اب ایک اور بڑے مسئلے کوجنم دیا ہے اور وہ ہے عوام کی ذہنی صحت۔ یہ ایک ایسا پہلو ہے جسے مسلسل نظر انداز کرنا اب تشویشناک نتائج کا سبب بن رہا ہے ۔ ڈپریشن ، اینگزائٹی ، بے سکونی اور مایوسی یہ وہ مسائل ہیں جو صرف شہری حلقوں تک محدود نہیں رہے، بلکہ دیہی علاقوں اور کم آمدنی والے طبقات تیزی سے اس کا شکار ہو رہے ہیں۔ ایک انسان جب مسلسل خوراک، ادویات، بچوں کی تعلیم یا گھر کے کرایے کی فکر و بندوبست میں مصروف ہو ، تو وہ نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی طور پر بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتا ہے۔ ایسے حالات کا ذہنی صحت پر اثر انداز ہونا ناگزیر ہے۔ لیکن افسوس کی بات تو یہ ہے کہ بیشتر طبقے اس سنجیدہ مسئلے کو ” کاہلی”، ” ایمان کی کمزوری “، یا ” جنات کا سایہ ” کہہ کر اصل بیماری کو نظر انداز کردیتے ہیں۔
معاشی دباؤ اور ذہنی بیماریوں کے درمیان تعلق پر کسی سائنسی بحث یا عمیق ریسرچ کی ضرورت نہیں ہے ۔کیونکہ لاہور، کراچی، فیصل آباد، پشاور اور پاکستان کے دیگر شہروں میں خودکشی کے متعدد واقعات سامنے آ چُکے ہیں، جن کی بنیادی وجہ صرف غربت اور اور اس کی وجہ سے پیدا ہوتا نفسیاتی دباؤ ہے۔ کئی واقعات بطور نمونہ پیش کئے جا سکتے ہیں جیسے لاہور میں ایک نوجوان باپ نے مالی مشکلات سے تنگ آ کر اپنی جان لے لی۔ اسی طرح، کراچی کی ایک خاتون نے گھریلو تشدد، روز مرہ خرچے کی تنگی ، اور خاندانی دباؤ کی تاب نہ لا کراپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا۔ پچھلے دنوں فیصل آباد کی تحصیل جڑانوالا میں بھی ایک ماں نے اپنی تین بچیوں سمیت نہر میں چھلانگ لگا کر زندگی ختم کرنے کی کوشش کی ۔ لیکن جسے اللہ رکھے کے مصداق اپنی اور بچیوں کی جان لینے کی اس کوشش کوریسکیو ٹیموں نے ناکام بنا دیا۔ یہ محض چند واقعات نہیں ، بلکہ یہ معاشرتی بے حسی اور ریاستی ناکامی کی واضح مثالیں ہیں۔ ہر روز لاکھوں افراد ندر ہی اندر گھُٹ گھُٹ کر مر رہے ہیں اور صرف اس وجہ سے کہ ان کے مسائل کوئی سننے کو تیار نہیں ،نہ خاندان میں، نہ محلے میں، اور نہ ہی کوئی ادارہ ایسا ہے جو ذہنی مسائل کے شکار ایسےافراد کی رہنمائی کر سکے ۔یہ امر افسوسناک ہے کہ پاکستان میں شہریوں کی ذہنی صحت کے حوالے سے نہ تو کسی قسم کی پالیسی موجود ہے نہ بنانے پر توجہ دی گئی اور نہ ہی قومی بجٹ میں اس کے علاج کے لئے کوئی مناسب حصہ تجویز کیا گیا ہے۔ ملک میں ماہرینِ نفسیات کی شدید کمی ہے اور جو موجود ہیں بھی تو وہ زیادہ تر بڑے شہروں تک محدود ہیں اور اُن کی فیسیں عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہیں ۔ دیہی علاقوں میں تو صورتحال اور بھی زیادہ خطر ناک ہے، جہاں نہ تو مناسب سہولیات موجود ہیں اور نہ ہی عوام میں اس بارے شعور موجود ہے۔ ایک ریسرچ کے مطابق خواتین، مزدور، طلبہ، بے روزگار افراد اور کم آمدنی والے طبقات میں ذہنی بیماریوں کی شرح زیادہ ہے، لیکن ان کے علاج اور کونسلنگ کے لئے حکومتی سطح پر کوئی واضح نظام یا طریقہ کار وضع نہیں کیا جا سکا ۔ گھریلو تشدد بھی ایک ایسا پہلو ہے جس کا براہ راست تعلق ذہنی صحت سے جُڑتا ہے ۔ جب کوئی فرد مسلسل مالی دباؤ میں ہوتا ہے، اس کی خود اعتمادی ختم ہو جاتی ہے،تو ایسا شخص معاشی بے بسی کا شکار ہونے کے بعد اپنے غصے، مایوسی اور ناکامی کو قریبی رشتوں پر نکالنے لگتا ہے۔ جس سے خواتین اور بچے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ عورتوں پر ذہنی اور جسمانی تشدد کیا جاتا ہے اور ماں کے ساتھ ساتھ بچے بھی یہ مناظر دیکھ دیکھ کر نفسیاتی مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں۔
معاشرے کی یہ ٹوٹ پھوٹ صرف فرد کی سطح پر نہیں بلکہ بطور قوم بھی ایک تشویشناک مسئلہ ہے۔ افراد میں ذہنی صحت کے مسائل بڑھتے ہیں تو پورا معاشرہ ڈپریشن ، غصے، بے یقینی اور تشدد کی کیفیت کا شکار ہو جاتا ہے۔ یہ صورت حال آج ہمیں سڑکوں، دفاتر، اسکولوں اور گھروں میں واضح طور پر نظر آتی ہے۔ جہاں معمولی باتوں پر لوگ لڑنے مرنے پر اُتر آتے ہیں ۔ لیکن تشویش کی بات تویہ ہے کہ اس انتہائی اہم مسئلے پر گفتگو کرنا بھی اب تک ایک قسم کی ‘شرمندگی’ سمجھا جاتا رہاہے۔ اول تو ذہنی مسائل کا شکار افراد یہ ماننے کوتیار نہیں ہوتے کہ وہ کسی ذہنی پیچیدگی کا شکار ہیں ۔ دوسرے معاشرہ ایسے افراد کی مدد کرنے کی بجائے اُلٹا اُن کی ذہنی کیفیت مزید بگاڑنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس سوچ اور رویے میں ہر ایک کو تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے تعلیمی نصاب میں ذہنی صحت کے بارے میں آگاہی کو شامل کرے۔ میڈیا، اساتذہ، علماء، اور سماجی کارکنوں کو اس موضوع پر تفصیل سےبات کرنی چاہیے بلکہ آواز اٹھاناچاہئیے تاکہ فرد کی ذہنی صحت کو وہ اہمیت مل سکے جو اس کا بنیادی حق ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ ضلع کی سطح پر کم از کم ایک مفت ذہنی مشاورت مرکز ضرور قائم کرے اور اُن افراد کی نشاندہی کرنے کا نظام وضع کرے جو ذہنی پیچیدگیوں کا شکار ہوں ۔ ذہنی صحت کو بنیادی صحت کا حصہ سمجھنا چاہئیے اور ریاست بطور قوم ذہنی صحت برقرار رکھنے کے لئے پسماندہ طبقات پر خصوصی توجہ دے ۔
جب تک ذہنی صحت جیسے مسائل کو قومی ترجیحات میں شامل نہیں کیا جا ئے گا تب تک خودکشی، گھریلو تشدد اور معاشرتی بگاڑ جیسے مسائل معاشرے کو کھوکھلا کرتے رہیں گے کیونکہ ذہنی صحت کے مسائل نہ صرف انفرادی زندگیوں کو متاثر کرتے ہیں بلکہ پورے معاشرے کی بنیادیں ہلا دیتے ہیں ۔

Author

Editor Hum Daise
ADMINISTRATOR
PROFILE

Posts Carousel

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked with *

Latest Posts

Top Authors

Most Commented

Featured Videos

Author