Author Editor Hum Daise View all posts
سرور حسین سکندر
ایران اور اسرائیل جنگ کے دوران زیادہ انٹرنیشل میڈیا دیکھتا اور ان کی اسٹوریز پڑھنے کی کوشش کرتا ہوں لیکن ایک چیز میں سب سے زیادہ نوٹس کرتا ہوں کہ مشرق وسطیٰ کی یہ جنگ کچھ دن پہلے شروع نہیں ہوئی بلکہ کئی دہائیوں سے ان کے درمیان فیزیکلی نہیں بلکہ انٹرنیٹ کے زریعے آنکھ مچولی جاری ہے بہت ساری بین الاقوامی جریدوں کو پڑھنے کے بعد ان سے حاصل شدہ کچھ مواد کو یہاں رکھ رہا ہوں جیسے وال اسٹریٹ جرنل میں شائع ایک اسٹوری کے مطابق ایران اور اسرائیل کے درمیان ایک ایسی خفیہ جنگ جاری ہے جو میدانِ جنگ میں نہیں بلکہ کمپیوٹرز اور انٹرنیٹ پر لڑی جا رہی ہے یہ جنگ سائبر حملوں کی شکل میں ہے جس میں دونوں ملک ایک دوسرے کے حساس اداروں اور سسٹمز کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں ایران کا دعویٰ ہے کہ سن 2010 میں اس کے نیوکلیئر پلانٹ پر “Stuxnet” وائرس کے ذریعے حملہ ہوا جو امریکہ اور اسرائیل کی طرف سے کیا گیا تھا اسی وقت سے ایران نے بھی جوابی کارروائیاں شروع کر دی تھیں ایکسائیوس کی رپورٹ کے مطابق حالیہ مہینوں میں ایران نے اسرائیل پر کئی سائبر حملے کیے ہیں،ل جن کا مقصد وہاں کے اسپتالوں پانی کی سپلائی اور ٹرانسپورٹ کے نظام کو متاثر کرنا تھا جواب میں اسرائیل نے بھی ایران کے آئل ٹینکر وزارتوں اور دوسرے اہم سسٹمز پر حملے کیے یہ حملے ایسے خاموش ہتھیاروں سے کیے جاتے ہیں جن کا فوری پتا لگانا مشکل ہوتا ہے-نیو یارک پوسٹ لکھا کہ ایران کے ہیکرز صرف اسرائیل تک محدود نہیں رہے بلکہ انہوں نے امریکہ کی مختلف کمپنیوں بینکوں اور دیگر اداروں کو بھی نشانہ بنایا چونکہ امریکہ اسرائیل کا قریبی اتحادی ہے اس لیے ایران اسے بھی دشمن سمجھ کر حملے کرتا ہے۔ یہ حملے کئی بار بجلی کے نظام پانی کی فراہمی اور انٹرنیٹ کو متاثر کرتے ہیں۔یوں ریجسٹر میں چھپا کہ سائبر حملوں میں یہ خطرہ بھی ہوتا ہے کہ اگر وائرس یا کوئی میلویئر (کمپیوٹر میں نقصان پہنچانے والا سافٹ ویئر) پھیل جائے تو وہ صرف ایک ملک میں محدود نہیں رہتا یہی وجہ ہے کہ کئی بار ایسے حملے امریکہ جیسے دوسرے ممالک تک بھی پہنچ جاتے ہیں چاہے وہ براہِ راست جنگ کا حصہ نہ ہوں-ایکسائیوس کی ایک اور رپورٹ کے مطابق ایران اور اسرائیل کی یہ سائبر جنگ اب اس سطح تک پہنچ چکی ہے کہ عام عوام بھی اس کا اثر محسوس کرتے ہیں اسپتالوں کی ای میل سسٹمز بند ہو جاتے ہیں، ایئرپورٹس کی پروازیں متاثر ہوتی ہیں اور سرکاری ویب سائٹس ہیک ہو جاتی ہیں وال اسٹریٹ جرنل لکھتا ہے کہ امریکی ماہرین اب اس صورتحال پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ جب تک دنیا کے ممالک آپس میں کوئی مشترکہ سائبر قانون نہیں بناتے ایسے حملے بڑھتے رہیں گے۔ اب ضرورت ہے کہ بین الاقوامی ادارے اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور کریں ریجسٹر کے مطابق یہ خفیہ سائبر جنگ اب صرف اسرائیل اور ایران تک محدود نہیں رہی اس کا اثر دنیا کے دوسرے ملکوں خاص طور پر امریکہ پر بھی پڑ رہا ہے سائبر حملوں سے کئی بار اسپتال تعلیمی ادارے اور بینکنگ سسٹمز متاثر ہوتے ہیں اور عام لوگ بھی مشکلات کا شکار ہو جاتے ہیں-ایکسائیوس اور نیو یارک پوسٹ کی رپورٹیں بتاتی ہیں کہ دنیا کو اب ایک نیا خطرہ لاحق ہے ایک ایسی جنگ جو نہ دکھائی دیتی ہےاور سنی جاتی ہے لیکن اس کے نتائج بہت شدید ہوتے ہیں اب وقت آ گیا ہے کہ عالمی ادارے اس پر ضابطے بنائیں اور دنیا کو سائبر دہشتگردی سے بچایا جائے یہ جنگ اب صرف بم گولوں یا ٹینکوں سے نہیں لڑی جا رہی، بلکہ ایک کی بورڈ اور انٹرنیٹ کنکشن کے ذریعے لڑی جا رہی ہے اور اس خاموش جنگ میں طاقتور ملک بھی محفوظ نہیں.
Leave a Comment
Your email address will not be published. Required fields are marked with *