سمیر اجمل Author Editor Hum Daise View all posts
سمیر اجمل
گرمیوں کے موسم میں پنجاب اور ملک کے دیگر حصوں سے شہریوں کا شمالی علاقہ جات میں تفریح کے لئے آنا معمول کی بات ہے۔ جون‘جولائی اور اگست یہ وہ تین مہینے ہیں جن میں شہری بڑی تعداد میں پہاڑی علاقوں اور سرد مقامات مری ناران‘ کاغان‘سوات کالام‘ وادی نیلم‘کشمیر اور دیگر مقامات کا رخ کرتے ہیں‘ سیر و تفریح کے دوران چھوٹے موٹے حادثات اور واقعات رونما ہونا معمول کی بات ہے اور یہ ہوتے بھی رہتے ہیں مگر امسال سیر و سیاحت کے لئے جانے والے افراد کے ساتھ جو واقعات پیش آئے ہیں انہوں نے ہر درد دل رکھنے والے کو افسردہ اور پریشان کردیا ہے۔دریائے سوات میں ایک ہی خاندان کے 19افراد کا ڈوب جانا‘ ژوب میں ماں بیٹی سمیت چار افراد کا گاڑی سمیت بہہ جانا اور پھر اس کے ساتھ سیلابی ریلیوں میں پھنسے ہوئے افراد کی جو تصاویر اور ویڈیوز سامنے آئی ہیں وہ انتہائی تشویشناک ہیں ان سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ ہماری حکومت یا مقامی انتظامیہ کے پاس ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لئے کوئی لائحہ عمل نہیں ہے‘سیاحوں کے لئے کوئی گائیڈ لائن نہیں کہ وہ کہاں جا سکتے ہیں اور کہاں نہیں جاسکتے ہیں۔ سیلابی ریلے‘ برفانی تودے یا دیگر آفات کا سامنا ہونے کی صورت میں انہیں کس طرح سے اپنا بچاؤ کرنا ہے یا کس ادارے سے رابطہ کرنا چاہئے اس بارے میں نہ توکبھی کوئی ایڈوائزری جاری کی جاتی ہے اور نہ ہی آگہی مہم چلائی جاتی ہے۔ بس ایک بھروسہ ہی تھا جس کی بنا پر گرم علاقوں کے رہائشی ہر سال سرد مقامات کی طرف جاتے تفریح کرتے اور موسم کو انجوائے کرکے واپس لوٹ آتے تھے مگر حالیہ دنوں میں جو کچھ ہوا ہے اس سے وہ بھروسہ بھی ختم ہوگیا ہے۔دریائے سوات میں پھنسے ہونے خاندان کی بے بسی پورے پاکستان نے دیکھی ہے کس طرح ہنستا بستا گھر آناً فاناً اجڑ گیا‘ وہی لوگ جو چند لمحے پہلے ہستے مسکراتے ایک دوسرے کے ساتھ سلیفیاں بنا رہے تھے کچھ دیر بعد روتے ہوئے ایک دوسرے کی زندگی کی دعائیں مانگ رہے تھے اور ایک دوسرے کو بچانے کی کوشش میں اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے پیاروں کو کھوتے جارہے تھے۔ ایسا ہی منظر کا سامنا لاہور کی فیملی کو ناران کاغان میں کرنا پڑا جہاں پر سیلفی بناتے ہوئے گلیشیئر کا ایک حصہ (برفانی تودا) گرنے سے تین افراد نیچے دب کر جان کی بازی ہا ر گئے تھے۔ ان دونوں واقعات میں عینی شاہدین اور جاں بحق ہونے والے افراد کے لواحقین کا کہنا ہے کہ جہاں پر حادثات ہوئے وہاں انتظامیہ یا ریسکیو کرنے والے اداروں کا کوئی فرد موجود نہیں تھا اور ریسکیو کے لئے جب متعلقہ اداروں کو اطلاع دی گئی تو وہ خاصی تاخیر سے پہنچے اور جب موقع پر پہنچے تو بتایا گیا کہ ان کے پاس ایسے آلات نہیں جن کے ذریعے ان حالات میں پھنسے ہوئے افراد کو ریسکیو کیا جا سکے۔اس طرح کے حالات کا سامنا ملتان کی ایک فیملی کو ژوب میں کرنا پڑا‘ اطلاعات کے مطابق ملتان سے ژوب جانے والی دو بہنیں اور ان کی ایک بھانجی ژوب میں بیٹھے کھانا کھا رہے تھے کہ اچانک سیلابی ریلا آگیا جس سے بچنے کے لئے یہ لوگ گاڑی میں بیٹھ کر تیزی روانہ ہوئے مگر بھپرے ہوئے سیلابی ریلے نے انہیں نکلے کا موقع نہیں دیا گاڑی ندی میں بہہ گئی جس سے ڈرائیو سمیت چار افراد کی موقع پر موت واقع ہوگئی۔ ان سب واقعات کو اگر دیکھا جائے تو اس میں جو کچھ ہوا ہے وہ انتہائی الارمنگ ہے۔آناً فاناً پانی آیا‘ آناً فاناً گلیشیر کا ایک حصہ گرا۔۔یہ سب کچھ معمول کے مطابق نہیں ہے یہ ان موسمیاتی تبدیلیوں کا اثر ہے جن کا سامنا پوری دنیا کو
ہے۔ گلشیئر تیزی سے پگھل رہے ہیں جس کی وجہ سے اندازہ ہی نہیں کیا جا سکتا کہ کب کہاں اور کتنا پانی آسکتاہے۔ وہ برف جو بظاہر سخت نظر آتی ہے درجہ حرات کے باعث اندرسے پگھل کر پانی بن چکی ہے
اس کے لئے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ کب تک جمی رہ سکتی ہیں۔ موسیماتی تبدیلیوں کے حوالے سے ماہرین کا تو یہاں تک کہنا ہے ہمیں جو برف کے پہاڑ نظر آتے ہیں درجہ حرارت میں اضافے کے باع یہ اندر سے پگھل کر پانی بن چکے ہیں جو کسی بھی وقت پھٹ سکتے ہیں جس سے ندی نالوں اور دریاؤں کا رخ تک تبدیل ہوسکتا ہے۔ وہ تفریحی مقامات جو کبھی محفوظ سمجھتے تھے وہ اب محفوظ نہیں رہے ہیں‘مگر ہماری حکومت اور مقامی انتظامیہ چین کی نیند سو رہی ہے۔ سیر و تفریح اور پہاڑی علاقو ں کے سفر کے حوالے سے نہ کوئی ایڈوائزری جاری کی جاتی ہیں اور نہ ہی آگہی مہم! یہاں تک پر خطر مقامات اور دریاؤں کے بیڈ جہاں پرخطرات کا سامنا ہوسکتا ہے وہاں پر جانے سے روکنے کے لئے افراد کی موجودگی تو دور کی بات انتباہی بورڈ تک نصب نہیں کئے گئے ہیں اس لئے جو ہورہا ہے یہ مشیت ایزدی نہیں ہے موسیماتی تبدیلیوں اور حکومتی عدم توجہی کا کیا دھرا ہے اس پر اگر غور نہ کیا گیا تو اس سے بڑے حادثات کا سامنا بھی ہوسکتا ہے
Leave a Comment
Your email address will not be published. Required fields are marked with *