مدیراعلی: ندیم اجمل عدیم


پٹھ درــ وسیب کی سماجی اقدار سے جڑی کہانیاں

پٹھ درــ وسیب کی سماجی اقدار سے جڑی کہانیاں

ڈاکٹر نسیم اختر

میں نہیں جانتی کہ جاوید آصف کس طرح کی شخصیت ہے۔ میرا اس کے ساتھ رابطہ اس کی تحریروں کا مرہون منت ہے۔ آج جب لفظوں کو سیکھنے کا شوق چرایا تو ایک افسانوی مجموعہ ــ’’پٹھ در‘‘ پڑھنے کا موقع ملا ۔ یہ صرف افسانے ہی نہیں ہیں بلکہ جاوید آصف کے مشاہدے اور ذہنی حساسیت کا آئینہ دار ہے۔ جس میں اس نے اپنے وسیب واسیوں ان کی شعوری سطح اور اس سے جڑے کچھ معاملات کو کہانی کی صورت میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے جو علمی و ادبی جہاد کے مترادف ہے۔جاوید آصف کے افسانوی مجموعے کا نام ــ’’پٹھ در‘‘ایک وسیبی روایت جو شاید منافقت پر مبنی ہے۔ اس کا ایک خوبصورت طریقے سے یعنی ادب کے ذریعے پرچار کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ’پٹھ در‘ روایت کے مطابق اگر ایک گروہ ، برادری یا سرے گروپ ، برادری یاخاندان کے ساتھ کسی سبب انتشار یا لڑائی کرتا ہے تو مخالف پارٹی کے کچھ لوگ یا کوئی ایک آدمی اگر کسی دوسرے گروہ یا برادری کے ـساتھ اپنے دیگر احباب کو بتائے بغیر صلح کرے اور یہ کہے کہ باقیوں سے میرا کوئی تعلق نہیں ۔ لہذا اب بدلہ یا لین دین دیگر احباب سے تو ہوگا لیکن وہ بری الذمہ ہو جائے گا۔ اسی وسیبی روایت یا منفی رسم کو ’ـپٹھ در‘ کہتے ہیں۔ اگر اس عنوان سے متعلقہ افسانے پر بات کی جائے تو اس کی مزید وضاحت ہو جاتی ہے۔ یہ افسانہ دو بھائیوں کی کہانی پر لکھا گیا ہے۔ جس میں بڑا بھائی لعل بخش ایک کاروباری بندہ ہے جسے اپنے رشتوں سے زیادہ اپنے روپے پیسے سے محبت ہے۔ ایک دن لعل بخش کی طالب نام کے آدمی سے لڑائی ہو جاتی ہے اور جب اس کے چھوٹے بھائی فضل کو اس کے بارے میں پتہ چلتا ہے تو وہ طالب سے جا کر لڑائی کر لیتا ہے۔ جس پر لعل بخش کوغصہ آتا ہے اور وہ اپنے بھائی کو گالیاں دیتا ہے کہ اس نے ایسا کیوں کیا۔ اب اسے گھر میں رہنا پڑے گا تاکہ مخالف پارٹی اس کو کہیں دیکھ کر اس سے لڑائی نہ کرے۔ وہ سوچتا ہے کہ اگر وہ باہر نہیں جائے گا تو اس کا کاروبار بند رہے گا اور وہ جتنا منافع کماتا ہے وہ بھی اس کو نہیں مل سکے گا۔ اسی سوچ میں وہ اپنے دوستوں کو بُلا لیتا ہے تاکہ اُس کا دوسری پارٹی سے صلح کروا دیں اور یہ فیصلہ وہ اپنے بھائی فضل کو بتائے بغیر کرتا ہے اور کہتا ہے کہ فضل سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ وہ چاہیں تو اس سے بدلہ لے لیں۔ لعل بخش صلح کے لئے اپنے دوستوں کے ساتھ چلا جاتا ہے۔ فضل بخش کو جب یہ سب پتہ چلتا ہے تو اسے بہت دکھ ہوتا ہے ۔ جس بھائی کے لئے اس نے لڑائی کی اپنی زندگی کو خطرے میں ڈالا اس بھائی نے چند ٹکوں کی خاطر اسی بھائی کو چھوڑ دیاجس نے اس کی مدد کی۔ اسی سوچ میں وہ کوئی چیز دراز سے نکال کر گھر سے نکل جاتا ہے اور اپنے بھائی لعل بخش کی طرف چلا جاتا ہے۔ سامنے جب وہ بھائی کو دیکھتا ہے تو پستول اس کی طرف کر کے فضل بخش اس پر گولی چلا دیتا ہے اور لعل بخش زمین پر ایڑیاں رگڑتا رہ جاتا ہے۔ اس افسانے میں بہت سارے کردار ہیں۔ مگر فضل اور لعل بخش اس عنوان کے تحت مرکزی کردار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جو اپنی سوچ کے لحاظ سے ایک دوسرے کے متضاد کردار ہیں۔ فضل ایک مونجھا ماندا کردار ہے۔ اور لعل بخش خوشحال اور اپنے آپ میں مگن رہنے والا بیو پاری ذہن کا بندہ ہے۔ جس کو والد کی وفات کے بعد اپنی بوڑھی ماں سمیت کسی اور کا احساس نہیں۔ اس کا کاروباری ذہن اور حیاتی کا مقصد اور ہر معاملہ دو اور دو چار پر ختم ہوتاہے۔ عزت، غیرت اور معاشرتی اونچ نیچ اس کی ذہنیت کے سامنے بے معنی اشیاء ہیں۔ کاروبار اور اس کا نفع نقصان ہی اس کی زندگی میں اہمیت کے حامل ہیں ۔

اگر اس افسانے کی زبان کے حوالے سے بات کی جائے تو اس میں کچھ معیوب الفاظ بھی استعمال کئے گئے ہیں جو کہ ادبی زبان کا تضاد ہیں ۔ اس طرح کے کردار بے شک ہمارے وسیب میں ہیں ۔ لیکن ان کا اظہاریہ کسی اور طریقے سے یا علامتی انداز میں کیا جا سکتا ہے مگر اس حوالے سے ایک عمدہ بات یہ ہے کہ انہوں نے محاورے اور ضرب الامثال بہت اچھا اور بر وقت استعمال کیا ہے۔ اس مجموعے کا دوسرا افسانہ ’’چاکلیٹ‘‘ ہے۔ اگر چہ موجودہ دور کی پسندیدہ چیز ہے۔ چھوٹے بڑے تمام لوگ ہی اس کو پسند کرتے ہیں۔ بچے اپنا جیب خرچ عموماً چاکلیٹ لے کر صرف کرتے ہیں۔ اس کہانی کے اندر سجاد کی حساسیت کا ذہنی تجزیاتی مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔ اگرچہ کہانی تو ایک چاکلیٹ کے ساتھ بنے ایسے مجسمے کی ہے جسے کوئی بھی بچہ اس کے پہلے بازو توڑ کر کھاتا ہے پھر ٹانگیں اور آخر میں اُسے پورا نگل جاتا ہے۔ ایک طرف تو یہ استحصالی طبقے کی کہانی ہے۔ جہاں سرمایہ دار اُسے آہستہ آہستہ کر کے کھا رہا ہے اور آخر میں وہ ختم ہو جاتا ہے۔ یہ دراصل اس طبقاتی کشمکش کا اظہار ہے جس مین بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو نگل جاتی ہے اور اجارہ داری ہمیشہ بڑے طبقے کے پاس ہی رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کہتا ہے:۔ ’’تیں چاکلیٹ دی شکل ڈٹھی ہی؟ــ‘‘
دوسری طرف ہمارے بچوں کو کھلونوں اور ٹافیوں کے ذریعے انسانی توقیر اوراہمیت سے بے بہرہ کرنے کی ایسی خاموش اور میٹھی سازش ہے کہ جس کی مشق کرنے کے بعد ہماری نئی نسل کسی بھی انسان کو جانی و مالی نقصان پہچانے سے عار محسوس نہیں کرے گی۔ ایک حساس طبیعت کا حامل شخص نہ صرف ایسی چیزوں کے پیچھے رچائی سازش کو سمجھتا ہے بلکہ مستقبل میں اس کے ذریعے ہونے والے نقصانات کو بھی دیکھ لیتا ہے۔ جو معاشرے کی بے حسی سے آغاز کرنے کے بعد جان لیوا ہو جاتا ہے۔ جہاں کسی دوسرے شخص کے ساتھ مار کٹائی اور ایک دوسرے کی جان لینا ایک عام سی بات بن جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے کوئی بھی معاشرہ سیاسی، سماجی اور معاشی انحطاط کا شکار ہو جاتاہے۔ اس افسانوی مجموعے کا ایک اور افسانہ ’’نسوکڑ‘‘ پر بات کی جائے تو یہ ہمارے وسیب کے دور افتادہ ایسے علاقوں کی ترجمانی کر رہا ہے جہاں تعلیم کا فقدان ہے۔ لوگوں میں شعور کی کمی ہے۔ خود ساختہ رسم و رواج ہیں جو برائیوں کا سبب بنتے ہیں۔ جو ناسور بن کر پہلے عزتوں اور پھر جانوں کو نگل جاتے ہیں ۔ اس افسانے کے تین مرکزی کردار ناظم، اس کی بیوی سسی اور اس کا چھوٹا بھائی اظہر ہیں۔ ناظم کی والدہ جب تک زندہ رہیں بیٹے اور بیٹیوں کے گھر نہ بسنے دیئے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جہاں بیٹوں نے کئی کئی شادیاں کی وہاں بیٹیوں نے بھی اس رواج کی تقلید کی
۔ اگرچہ ہجرت بعض اوقات تبدیلی کا باعث بنتی ہے۔ اگر کچھ مقامی ہجرتیں مزید برائی کا سبب بنیں تو ہجرت کی بجائے سوچ وبچار کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ناظم سسی کی غلطیوں پر بار بار پردہ ڈالتا رہا کہ معاشرے میں عزت بنی رہے۔ مگر اس کی پردہ دری پورے معاشرے نے بلکہ سب سے پہلے اس کے چھوٹے بھائی اظہر نے کی۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ معاشرے کی چھوٹی چھوٹی برائیوں کا اگر درست وقت پر خاتمہ نہ کیا جائے تو وہ گھر اور وسیب کا ناسور بن جاتی ہیں۔ جہاں رشتوں کا تقدس پائمال ہوتا ہے۔ عزت و تکریم کے معنی بدل جاتے ہیں۔ رشتوں کو دیمک کھا جاتی ہے۔ وہ اندر سے کھوکھلے ہو کر اختتام پذیر ہو جاتے ہیں۔ ذرا اس میں ایک مثال ملاحظہ کریں:۔ـ’’ناظم شرمساری کنوں ایہا گالھ بھرا برادرییا کہیں حق ہمسائے نال سانجھی نہ کیتی پر اگلےڈیہنہ کراچی کنوں او ں ڈے ہکرشتے دار دی کال آگئی ـ’’تیڈی گھر والی رتوکی تیڈے بھرا کنے کراچی پہنچ گئی اے، تیکوں اوندے سانگےپریشان تھیون دی ضرورت نی‘‘۔ جاوید آصف کے افسانیـ’’ نسوکڑ
‘‘کی بجائے اگر’’ سسی‘‘ ہوتا تو شاید بامعنی لگتا۔ مگر احسن واگھا کا ایک افسانہ ’’مغربی جرمنی دی سسی‘‘ اور یہ ’’دور افتادہ سسی‘‘ دونوں ہی معاشرے کے لئے ایک سوالیہ نشان ہیں۔

(کالم نگار پوسٹ ڈاکٹریٹ ہیں اور سرائیکی ایریا سٹڈی سنٹر جامعہ زکریا کی ڈائریکٹر ہیں )

HumDaise
ADMINISTRATOR
PROFILE

Posts Carousel

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked with *

Latest Posts

Top Authors

Most Commented

Featured Videos