مدیراعلی: ندیم اجمل عدیم


ونی کی ظالمانہ رسم کی سزا صرف عورت کو ہی کیوں دی جاتی ہے؟

ونی کی ظالمانہ رسم کی سزا صرف عورت کو ہی کیوں دی جاتی ہے؟

بلال حبیب

ونی کا لفظ کس زبان سے لیا گیا؟ اس بارے میں دو رائے ہیں۔ ونی پنجابی یا پشتو زبان کا حرف ہے جو ونے سے نکلا ہے جس کے معنی خون کے ہے۔ پاکستان کے بعض حصوں میں بسنے والے قبائل یا برادری میں ونی بطور رسم بدقسمتی سے اج بھی ادا کی جاتی ہے۔ اس میں عورت کو سزا کے طور مخالف فریق کے حوالے کر دیا جاتا ہے جس میں جبر و دھونس سے بچیوں کو مخالف فریق کے فرد سے، خواہ وہ عمر رسیدہ ہی کیوں نہ ہو، شادی کرا دی جاتی ہے۔ ونی اس لڑکی یا عورت کے نا کردہ گناہ یا غلطی کی سزا ہوتی ہے جو اس کے کسی خاندان کے مرد نے کی ہوتی ہے۔ رحیم یارخان جو کہ پنجاب کا آخری ضلع ہے، جس کی سرحدیں سندھ اور بلوچستان سے ملتی ہیں، یہاں آج بھی قبائلی اور برادری نظام کا اثر رسوخ موجود ہے۔ رحیم یارخان جہاں میڈیکل کالج سے لے کر یونیورسٹیاں اور جدید علوم کی درسگاہیں موجود ہیں لیکن یہاں آج بھی خواتین کے مسائل ریکھ کر معلوم ہوتا کہ وہ زمانہ قدیم میں موجود ہیں۔ ونی جیسی رسم جہاں انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے وہیں ہمارے معاشرے میں موجود جاہلانہ رسم و رواج کی موجودگی کا پتہ دیتی ہے۔ کچھ عرصہ قبل نواحی قصبے موضع ٹھل حسن کے سرداروں نے پسند کی شادی کرنے کے خلاف جرگہ بلایا اور ایک ظالمانہ فیصلہ دیا۔ فیصلہ کےمطابق 17 سالہ لڑکی کو ونی کر دیا گیا تھا اور اس کی شادی 65 سالہ شخص سے بطور سزا کروانے کا فیصلہ کیا گیا۔اس چونکا دینے والی خبر نے جہاں تعلیم یافتہ طبقے کو حیراں کیا تھا وہیں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی سامنے آئی تھی۔ تفصیلات کے مطابق بستی کچا سبزانی، رحیم یار خان سے تعلق رکھنے والی ثناء حسین نے اپنی پسند کی شادی منصور گوپانگ سے کراچی جا کر کورٹ میں کی تھی۔ اس پسند کی شادی پر جرگہ بلایا گیا اور جرگہ کی طرف سے جبری شادی (17 سالہ لڑکی کی 65 سالہ مرد سے شادی) کے حکم نامے کا دلخراش واقعہ پیش آیا تھا۔ ثناء نے مقامی صحافیوں کو جرگے کے فیصلے کے بارے میں بتایا تھا اور اپنا ویڈیو بیان بھی جاری کیا تھا۔ ثنا نے بتایا تھا کہ اس نے اپنے علاقے کے منصور گوپانگ سے اپنی مرضی سے شادی کی تھی۔ جرگے نے، جو بااثر مقامی زمینداروں کی طرف سے بلایا گیا تھا، نے فیصلہ دیا کہ منصور کی بہن، 17 سالہ سمیرا، ثناء کے اپنے والد، 65 سالہ محمد حسین سے ‘ونی’ کی شکل میں شادی کرے کیونکہ جوڑے کی بڑوں کی رضامندی کے بغیر شادی ہوئی تھی۔ اپنے بیان میں واقعات کا ذکر کرتے ہوئے ثنا نے انکشاف کیا کہ “ہم نے اپنی مرضی سے شادی کی لیکن ہمارے قبیلے کے سرداروں بشمول سردار عبدالغفور گوپانگ، سردار یعقوب گوپانگ، سردار سلیم گوپانگ، اور سردار بشیر گوپانگ نے ایک جرگہ منعقد کیاتھا۔ یہ جرگہ چک نمبر 105-P، رحیم یار خان میں ہوا اور اس پسند کی شادی پر بطور سزا تبادلے کی شادی بطور ونی کا فیصلہ کیا گیا۔ ثناء اور منصور دونوں نے جرگے کے فیصلے پر عمل کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ جرگے کے فیصلے کو نہیں مانیں گے کیونکہ یہ ان کے مذہب کی تعلیمات کے خلاف ہے۔ ثنا نے مزید بتایا کہ جرگے کا فیصلہ ملک کے عدالتی نظام کے بھی خلاف تھا۔ اور سوال کیا کہ کوئی اپنی عدالتیں کیسے قائم کرسکتا ہے۔ جوڑے کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ کسی بھی قیمت پر سمیرا کی شادی نہیں ہونے دیں گے لیکن وہ بہت سی مشکلات کا سامنا کر رہے تھے اور اپنی جان بچانے کے لیے خود کو چھپا رہے تھے۔ ان کی مخالفت کے پیش نظر، زمینداروں نے مبینہ طور پر جوڑے کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دینے کا سہارا لیا، جس میں ان کے خلاف متعدد تھانوں، جیسے کہ رکن پور، آباد پور، تھانہ بی ڈویژن اور کراچی میں ان کے خلاف اغوا کے فرضی مقدمات درج کرنے کی کوشش کی گئی۔ ثنا نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ہم زندہ رہنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں اور چھپنے پر مجبور ہیں۔ اس حوالے سے ضلعی پولیس کے ترجمان سیف علی وینس نے رکن پور پولیس اسٹیشن میں دفعہ 365 کے تحت درج ایف آئی آر 198/23 کی موجودگی کی تصدیق کی، ابتدائی طور پر ثناء حسین کے والدین نے اس کے اغوا کا الزام عائد کرتے ہوئے درج کروایا۔ تاہم، 164 کے بیان کے بعد ایف آئی آر کو بعد میں خارج کر دیا گیا۔ سیف علی نے یقین دلایا کہ پولیس اس معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے اور اسے قانون کے مطابق ہینڈل کرے گی۔ “ہم مقدمے کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لے رہے ہیں اور اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ انصاف کی بالادستی ہو۔ سیف نے خطے میں قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے عزم پر زور دیا۔ سیف نے کہا کہ ریاست کی رٹ کو چیلنج نہیں کرنے دیا جائے گا۔سینئر کرائم رپورٹر رضوان اختر کے مطابق ونی کے اس واقعہ کو میڈیا نے بروقت ہائی لائٹ کیا تھا اور اس وجہ سے 17 سالہ لڑکی کی 65 سالہ شخص سے شادی رک گئی تھی۔ رضوان کے مطابق اس سال 2024ء میں 3 ماہ ہونے کو ہیں کوئی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا۔اس واقعہ میں ہونے والی جبری شادیوں کے مستقل مسئلے اور پاکستان میں بعض کمیونٹیز کے اندر انفرادی حقوق کو برقرار رکھنے میں درپیش چیلنجوں کی طرف توجہ مبذول کروائی ہے۔
حکومت کی طرف سے یہ دعوے تو کیے جاتے ہیں کہ ونی جیسی فرسودہ رسومات کو ختم کردیا گیا ہے مگر صورتحال اس کے برعکس ہے. ونی اور اس طرح کی رسمیں ابھی بھی جاری ہیں تاہم ان کی بعض اوقات شکل تبدیل کردی جاتی ہے۔ ونی کی رسم کو اب خاندانی رشتہ داری یا قبایلی تعلقات کی بنا پر کئیے جانے والی شادیوں کا نام دے دیا جاتا ہے جس کہ وجہ سے اس طرح کے کیسز میڈیا میں رپورٹ نہیں ہو پاتے اس حوالے سے خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم عمل رخسانہ پروین کھوکھر کا کہنا ہے کہ وہ ونی کی رسم کی بھرپور مذمت اور حوصلہ شکنی کرتی ہیں اور حکومت سے اپیل کرتی ہیں کہ اس رسم میں ملوث تمام ذمہ داران کو سخت سزا ہونی چاہیے۔ رخسانہ کا کہنا تھا کہ اس ظالمانہ رسم کے خلاف ہم سب کو کھڑا ہونا چاہیے۔ اگر ایک شخص غلطی کرتا ہے تو اس کی سزا ایک معصوم لڑکی کو دینا انسانیت نہیں۔ انہوں نے حکومت سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ تمام فرسودہ رسومات بشمول ونی کے خلاف سخت قانون سازی ہونی چاہیے تاکہ یہ فرسودہ رسومات جڑ سے ہی ختم ہو جائیں۔
معروف عالم دین قاری ممتاز احمد کا کہنا ہے کہ اسلام ایک عورت کو اپنی مرضی سے نکاح کا اختیار دیتا ہے تاہم ونی جیسی رسم کی مذہب میں کوئی گنجائش نہیں۔ اسلام میں نکاح کے بارے واضح احکامات موجود ہیں جن کو مسنون طریقے سے ہی انجام دیا جا سکتا ہے۔حکومت کو چاہیے کہ اس سلسلے کو مکمل ختم کرے۔

HumDaise
ADMINISTRATOR
PROFILE

Posts Carousel

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked with *

Latest Posts

Top Authors

Most Commented

Featured Videos