مدیراعلی: ندیم اجمل عدیم


جاوید اصف کی”جنج کچاویں چڑھی”

جاوید اصف کی”جنج کچاویں چڑھی”

Author HumDaise View all posts

ڈاکٹر نسیم اختر

شاعری حساس جذبوں کے اظہار اور شعور کی پر داخت کا نام ہے جس کے ذریعے شاعر اپنی ذات کا کتھارسس کرتا ہے۔ اپنے اردگرد وقوع پذیر ہونے والے واقعات اور حالات کا تاثر اپنے لفظوں میں ڈھالنے کی کوشش کرتا ہے۔ جس میں وسیبی ثقافت کے رنگ ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ وسیب کے ریتی رواج کے جانے مانے اظہار کو لوکائی انداز میں پیش کرتا ہے۔ اپنے وسیب کی تاریخ و ثقافت کے سنجوک کو تلمیحات، استعارات اور تشبیہات سے مزین کرتا ہے۔ یہ اظہار شعوری اور لاشعوری دونوں طرح سے ممکن ہے۔
عموماً شاعر اپنی ذات کا اظہار دو طریقوں سے کرتا ہے ایک تو سیدھے سادھے انداز میں محبوب کے ساتھ وابستہ واردات قلبی کو شعری سانچوں میں ڈھال دیتا ہے۔ جبکہ دوسرے انداز میں وہی شاعر اپنے اسی اظہار کو اشارے کنائے یا علامات کے ذریعہ شعری خوبصورتی کے روپ میں مزیّن کرتا ہے۔ لفظوں کا انتخاب جہاں شاعر کی حساس طبع کا اظہار ہے وہاں اس کی علمیت کا غماز اور اس کی وسیبی ثقافت کا آئینہ داربھی ہوتا ہے۔ یہ تمام خصوصیات جاوید آصف کی شاعری میں بھی مطالعہ کی جا سکتی ہیں۔ اس مجموعے کا انتخاب خود اعتمادی کا پختہ یقین ہے۔
؎ کیا ضروری ہے میں تیڈا ناں گھناں
جانڈدیں میڈا مخاطب کوݨ ہے !
آصف جاوید کی اس شعری دولت میں نعت رسول مقبولؐ، شہداء کربلا کے ساتھ عقیدت، کچھ قطعات، کچھ ڈوہڑے، نظمیں ،گیت اور غزلیں شامل ہیں۔
نعت رسول مقبولؐ لکھنے کے لئے وجٔہ تخلیق کائنات کے ساتھ محبت و عقیدت کی اتھاہ گہرائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ لازم ہے کہ جو لکھاری آپ کی سیرت مبارکہ کا شناساہو تو پھر نعت رسول مبارک کا ہر شعر پڑھنے یا سننے والے کو اپنے شعر کی گرفت میں لے لیتا ہے۔
؎ با عزت کیتی انھاں کوں ہن جیر ھے بے بھاو
تیں ﷺ جیہاں کئی انقلابی شخص آئے نہ آوݨے
شہداء کربلا کے ساتھ عقیدت کا اظہار و سیر زبان کے شاعر خاص طور پر سرائیکی وسیب کے شعراء کرام کی شاعری کا خاصا ہے بلکہ یوں کہیں کہنا درست ہوگا کہ سرائیکی شاعری اس کے بغیر بالکل ادھوری ہے اس حوالے کا ایک اظہار ملاحظہ کریں:۔
؎ بے تاب ہے زہرا ء ؓ دی نیاݨی نہیں پہنچا
افسوس اجاں تئیں کُئی مکاݨی نہیں پہنچا
واقع کربلا اور وسیبی ریت کے مطابق تعزیت کرنا ، بہنوں کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھنا یا ان کے ساتھ دکھ سانجھا کرنا اہم سمجھا جاتا ہے۔ کہ معاشرتی ، وسیبی ایکتائی کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ اس شعر میں لفظ ‘نیانی’ اور مکانیّ لازم و ملزوم نظر آتے ہیں۔ عقیدت کا یہ رنگ تمام اشعارمیں نمایاں ہے۔ اگر غزل کی بات کی جائے تو موضوعاتی غزلیں جاوید آصف کی شعوری کاوش ہے۔ جس میں اس کی آگاہی ، ادراک اور سوچ بچار وسیبی خصوصیات کی غماز ہے۔ جس میں کہیں غیرت ایمانی کی بات کرتا ہے تو کہیں تنہائی کو گلے لگاتا ہے۔ تنہائی کے ساتھ مانوسیت کا رشتہ بنا کر دوسروں کے لئے خوشی کو ترجیح دیتا ہے اور اس پر راضی نظر آتا ہے۔ مگر جاوید آصفؔ کی تنہائی فیض احمد فیض ؔکے احساس تنہائی سے قدرے مختلف نظر آتی ہے۔ فیض ؔ تنہائی کے عذاب سے باہر نکلنا چاہتا ہے۔ جبکہ یہ حساس شاعر اپنی تنہائی کے حصار کے عذاب کو کسی کے ساتھ سانجھا بھی نہیں کرنا چاہتا۔
؎ و ل مونجھے لوکیں کوں مونجھا کرݨ دل نئیں کیتا
میں شعریں وچ پُھل تتلی دا قصہ راہوݨ ݙتے
شاعر کا یہ احساس اس کی وسیبی ثقافتی پرورش کا ائینہ دار ہے۔ یہ اپنی ‘میں’ کو مارکر اپنی محبت و عقیدت کا اظہار کرنے والا ماہڑوں (بندہ) ہے۔ میں ہینڑاں جیکر ۔۔۔ میں وی گھساں میڈا کیا ہے؟
درحقیقت سرائیکی وسیبی شاعر کی ایک پہچان اس کی وہ مونجھ مانتا، اس کی کسک جو کہ ازلی ہے اور متصّوف شاعری کی بنیاد ہے۔ جس کا وہ جتنا اظہار کرتا جاتا ہے اس کی وہ مونجھ اور کسک بڑھتی چلی جاتی ہے۔ کیونکہ اس کےساتھ اس کی سنگت و دوستی بہت گہری ہو چکی ہے۔ اُس کے ساتھ اس کی حیاتی کی سانجھ ہے۔
؎ مونجھی مونجھی فضا اے وسبے دی
دل وی ماندی اے توں نوھی آندا
جاوید آصفؔ کی لکھت میں جھلکتی ہوئی اس کی خود اعتمادی اس کے فن کی صداقت ہے۔ کہیں کہیں تو وہ ایک شعر میں ہی پوری حیاتی کی داستان سنا دیتا ہے۔

اوندے در تو ں ولا روندیں ولی ھے
جیرھی گھر پُتر دے ڳاندی ڳئی ھے
ایک نقاد کو اس موضوع پر تنقید کے لئے کئی صفحے درکار ہیں۔ مگر حقیقت کے اس پندھیڑو نے دو چھوٹے سے مصرعوں میں بیان کر کے مکمل کر دیا ہے۔ شاعری کے اس حصے میں زندگی کا ایک تلاطم ہے ، گھمن گھری ہے جوار بھاٹا ہے۔ مگر طلسماتی خوشنمائی کا اظہار نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس بارے زندگی کی تلخ حقیقتوں پر لکھتے ہوئے تحقیق و تنقید کا ایک باب کھل جائے گا ۔ اُمید ہے آنے والا محقق و نقاد اس کمی کو ضرور پورا کرے گا۔
ان کی شاعری میں موجود قطعات اور ڈوہڑے کو اگر موضوع بحث بناؤں تو مختصر یہ کہنا پڑے گا کہ قطعات کا رنگ تھوڑا سا پھیکا ہے۔ مگر ڈوہرے کا ٹھاٹھ اونچا و نمایاں اور روائتی ہے۔ مگر آصف جاوید کے اس مجموعے میں ڈوہڑے کو بہت تھوڑی جگہ دی گئی ہے۔تاہم لکھے گئے ڈو ہڑے فنی اور فکری لحاظ سے بہت عمدہ ہیں۔ جس میں سرائیکی ڈوہڑے کی روانگی ، ترنم اور چس موجود ہے۔ آزاد نظموں میں سے نظم “ترلا” اگرچہ مختصر ہے مگر اس کا موضوع اور لفظی ساخت اپنے ماحول کی صورت حال اور اندرونی احساس کی وضاحت کرتی ہے جس میں ایک باہمت شخص کی منت و سماجت (ترلے) ہے۔ جو جینے کے لئے اس کو متحرک رکھتے ہیں۔ نظم “حیرانی” ایک وسیبی حقیقت ہے جو ہمارے وسیب کے تقریباً ہر گھر کی کہانی ہے۔ ہم بیٹے کی پیدائش پر خوشیاں مناتے ہیں اور بیٹیوں کے پیدا ہونے پر دُکھی ہو کر ایک دوسرے کو تسلیاں دیتے ہیں۔ شاید یہ ہمارے وسیب کی وہ پہلی وجہ ہے جس نے ادب و معاشرت میں نسائیت کے موضوع کو جنم دیا۔ دوسری طرف نظم “وسوں” میں شادمانی کا ایک عنصر غالب ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ انسان کے اندر حقیقی خوشی کا شادیانہ بج رہا ہے۔ اور سارا جمل جہاں خوشیو ں سے چمکتا ہوا نظر آتا ہے۔
نظم “مونجھ” ہماری معاشرت کا ایک عمومی اظہاریہ ہے۔ مونجھ ایک ایسی کسک کا نام ہے جو دل کو مٹھی میں لےکر انسا ن کو ایک خول کے اندر بند کر دے۔ مگر دوسری طرف اپنے اندر کا جہاں بھی آباد رکھتی ہے۔ ‘مونجھ’ محسوس کی جا سکتی ہے، ضرور پوچھی جا سکتی ہے۔ مگر بتائی نہیں جا سکتی۔ شاعرنے اس اَن دیکھے احساس کو ایک ازلی احساس کے ساتھ گہرے دکھ میں تخلیق کیا جو اس کی مونجھ کی اتھا ہ گہرائی کا اظہار ہے۔ میں جاوید آصف کے ہر شعری موضوع خاص کر ہر نظم پر بات کرنا چاہتی ہوں مگر مجھے اس بات کا ادراک ہے کہ موجودہ دور کے ہر انسا ن کا وقت اور سرمایہ بہت قیمتی ہے۔ آخر میں صرف ایک جملہ کہنے کی جسارت کروں گی کہ بہت دیر بعد تل وسیبی شاعری کا ایک بہت خوبصورت ٹکڑا میرے ہاتھ لگا۔۔۔
جاوید آصف بہت شکریہ!

‘ مونجھ ‘
مونجھ کوئی مضروضہ تاں نئیں
جیکوں فرض کریجے
مونجھ حقیقت جیندی جا گدی
ایکوں کیں جھٹلیجے
مونجھ ایہو جھاں پھاڑ نئیں جیکوں
سوئی دے نال سویجے
مونجھ نئیں کوی زیور، تریور
جیکوں پاٹھمکیجے
مونجھ گھر یندی جاہ وی کائنی
مونجھ حجم نئیں رکھدی
مونجھ کریندی جگرے زخمی
ظاہر زخم نئیں رکھدی

Author

1 comment
HumDaise
ADMINISTRATOR
PROFILE

Posts Carousel

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked with *

1 Comment

  • جاوید آصف
    March 14, 2024, 11:59 am

    واہ واہ واہ بہت ہی خوبصورت آرٹیکل میم اس کرم فرمائی کا تہہ دل سے شکرگزار ہوں

    REPLY

Latest Posts

Top Authors

Most Commented

Featured Videos

Author