Author HumDaise View all posts
تحریر: سمیر اجمل
صنفی بنیاد پر خواتین کو دوران ملازمت یا ملازمت کی جگہ (دفاتر‘ فیکٹریاں‘ کاروباری اداروں)ہراسمنٹ کا سامنا تو کرنا ہی پڑتا ہے مگر جب خاتون کا تعلق مذہبی اقلیت سے ہوتو ہراسمنٹ کی شکل بدل جاتی ہے اور اس ہراسمٹ کے رد عمل میں اس خاتون اور اس کے اہل خانہ کی زندگی کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں‘ اس کی ایک بڑی مثال کراچی کی تبیتا گل کی ہے‘ تبیتا گل کا تعلق کرسچین کیمونٹی سے ہے اور پیشہ کے لحاظ سے نرس ہیں‘ جنوری 2021کی ایک صبح وہ کراچی کے ہسپتال میں معمول کے مطابق فرائض سرانجا دے رہی تھی کہ ان کے ساتھ کام کرنے والی کچھ خواتین نے انہیں شدید تشدد کا نشانہ بنایا‘اس دوران موبائل فون کے ذریعے کلپس بھی بنائے گئے جو کہ بعدازاں سوشل میڈیا پر وائرل بھی کئے گئے ان کلپس میں دیکھا جا سکتاتھا کہ تابتیا گل ہسپتال میں ایک بنچ پر بیٹھی ہوئی ہیں اور کچھ خواتین ان پرجوتوں‘ مکوں اور تھپڑوں سے تشدد کر رہی ہیں اور کہہ رہی ہیں کہ لکھ کر دو کہ آئندہ کوئی توہین آمیز بات نہیں کرو گی‘ تابتیا گل کے خلاف کراچی کے تھانہ آرام باغ میں 29جنوری 2021کو تعزیرات پاکستان کی دفعہ 295سی کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا‘ یہ مقدمہ تو 29جنوری کو درج ہوا مگر تابیتا گل پر ہسپتال کے اندر تشدد کے کلپس 28جنوری کو وائرل ہوگئے تھے یعنی انہیں تشدد کا نشانہ ایف آئی آر درج ہونے سے ایک یا دو روز قبل تشدد کا نشانہ بنایا جا چکا تھا‘ تشدد کا نشانہ بننے کے بعد تابیتا گل کو نہ صرف ہسپتال کی نوکری چھوڑنا پڑی بلکہ اپنی جان بچانے کے لئے ملک بھی چھوڑنا پڑا تھا‘ فیصل آباد میں بھی دو نرسز کو اس طرح کی ہراسمنٹ کا سامنا کرنا پڑا تھا‘ مریم لعل اور عروج نوشین دونوں نرسیں ہسپتال میں ڈیوٹی کررہی تھیں کہ اس دوران ہسپتال کے ایک ملازم نے ان پر حملہ کردیا اس نے الزام عائد کیا کہ دنوں نرسز نے مقدس آیات کی توہین کی ہے‘ہسپتال کے دیگر ملازمین کے بیچ بچاؤ پر ان نرسز کی جان تو بچ گئی مگر جیسے ہی یہ خبر پھیلنا شروع ہوئی مذہبی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے افراد ہسپتال پہنچ گیے’ ہسپتال کا گھیراؤ کر لیا گیا اور یہ نرسز بھی تقریبا پانچ یا چھ گھنٹے ہسپتال میں محبوس رہیں جس کے بعد پولیس تھانہ سول لائنز نے تعزیرات پاکستان کی دفعہ 295بی کے تحت ان نرسز کے خلاف مقدمہ درج کرکے انہیں حراست میں لے لیا‘ان دونوں نرسز کو بھی جان بچانے کے لئے ملازمت کے ساتھ ساتھ ملک بھی چھوڑنا پڑا‘ ملازمت کی جگہ پر ہراسمنٹ اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والی خواتین کے لئے ایک ایسا مسلہ ہے جس کی وجہ سے وہ آزادنہ طور پر کام نہیں کر سکتی اور خوف کے عالم میں اپنے فرائض سرانجام دینے پر مجبور ہیں‘ زمرد گل کا تعلق بھی مسیحی کیمونٹی سے ہے اور وہ ایک سکول میں بطور ٹیچر کام کرتی ہیں ان کا کہنا ہے کہ بطور خاتون ان کو ہراسمنٹ کا ڈر تو رہتا ہے مگر اقلیت سے تعلق ہونے کی وجہ سے وہ زیادہ اس لئے خوف ذدہ رہتی ہیں کہ ان کے ساتھ کوئی ایسا واقعہ نہ ہوسکے جس کے نتیجے ان کی فیملی کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑے‘ روبینہ کھوکھر ایک نجی ہسپتال میں نرس ہیں ان کا کہنا ہے کہ کراچی اور فیصل آباد میں نرسز کے ساتھ ہونے والے واقعات کی وجہ سے وہ پریشان اور خوفزدہ رہتی ہیں‘ایڈوکیٹ شازیہ بھٹی کا کہنا ہے کہ اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والی خواتین کو جس طرح کی ہراسمنٹ کا سامناہے یہ انتہائی تشویشناک ہے‘ اقلیتی خواتین کو ملازمت کی جگہ پر تحفظ فراہم کرنے کے لئے خصوصی قانون سازی کی جانی چاہئے
Leave a Comment
Your email address will not be published. Required fields are marked with *