مدیراعلی: ندیم اجمل عدیم


قومی کمشن برائے وقار نسواں میں راہبہ (نن) کی تعیناتی کے حوالے سے تحفظات

قومی کمشن برائے وقار نسواں میں راہبہ (نن) کی تعیناتی کے حوالے سے تحفظات

    Authors Hum Daise View all posts HumDaise View all posts

 

 

سمیر اجمل

وزیر اعظم پاکستان کی جانب سے سسٹر مریم پروین کو قومی کمشن برائے وقار نسواں (این سی ایس ڈبلیو) کا ممبر مقرر کیا گیاہے۔ قومی کمشن برائے وقار نسواں میں اقلیتی کیمونٹی سے تعلق رکھنے والی خاتون کا بطور ممبر تقرر خوش آئند ہے تاہم خواتین کے حقوق کے لئے سرگرم عمل اس انتہائی فعال کمشن میں ایک راہبہ (نن) کی تعیناتی نے کئی سوالات اٹھا دئیے ہیں۔این سی ایس ڈبلیو میں بطور اقلیتی ممبر تعینات کی جانے والی خاتون سسٹر مریم پروین کا تعلق کرسچین کیمونٹی کی جماعت رومن کاتھولکس سے ہیں جو کہ مذہبی عقائد کے حوالے سے انتہائی قدامت پرست ہیں‘ رومن کاتھولکس عقائد کے مطابق مسیحی جوڑے کو ایک خاص صورت کے بغیر طلاق کا حق حاصل نہیں ہے چونکہ طلاق کا حق حاصل نہیں ہے اس لئے ان کو دوبارہ شادی کی اجازت بھی نہیں ہے اس کے علاوہ رومن کاتھولکس کینن لاء کو مانتے ہیں جس کے مطابق شادی کے لئے بچی کی عمر 13سال مقرر کی گئی ہے‘ کاتھولک مسیحی اور ان کے مذہبی رہنماء اس قانون کوخدائی قانو ن کا درجہ دیتے ہیں اور اس میں تبدیلی سے انکاری ہے جبکہ قومی کمشن برائے وقار نسوا ں کی تمام تر جدوجہد کم عمری کی شادیو ں کو روکنے کے لئے ہے اس صورت میں ایک ایسی خاتون کا قومی کمشن برائے وقار نسواں کا ممبر بننا حیرت انگیز امر ہے جن کا تعلق ایسے فرقے یا جماعت سے ہے جو کم عمری کا شادی کی حامی ہے‘ اگرچہ ملکی قانون کے تحت شادی کے لئے عمر کی حد مقرر کرکے کم عمری کی شادیو ں کا سدباب کردیا گیاہے مگر شادی کے لئے بچی کی عمر 13 مقرر کرنے والے قانون کی موجودگی کم عمری کی شادیوں کی حوصلہ افزائی میں معاون ہوسکتی ہے کیونکہ جب مذہبی لحاظ سے کم عمری کی شادی کو درست اقدام قرار دے دیا جائے تو پھر ان رجحانات کی حوصلہ شکنی کے بجائے حوصلہ افزائی ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں‘ رومن کاتھولکس قوانین کے مطابق ماسوائے بدکرداری کے (وہ بھی ثابت ہوجانے کی صورت میں) مسیحی جوڑے کو طلاق کا حق حاصل نہیں ہے چاہئے کسی خاتون کا شوہر اس پر تشدد ہی کیو ں نہ کرتا ہو وہ اس سے جد انہیں ہوسکتیہے‘ یہ ایک بہت بڑا تضاد ہے جو کہ اس تقرری کے حوالے سے سامنے آ یاہے‘نکہ قومی کمشن برائے وقار نسواں خواتین کو ہر قسم کے تشدد سے نجات دلانے کے لئے کوشا ں ہے اس کے لئے قانون سازی پر زور دیتا ہے اور ایسی سفارشات مرتب کرتا ہے جس سے خواتین کو طلاق‘ خلع اور علیحدگی جیسے معاملات میں درپیش مشکلات کا خاتمہ ہو!کیا ایسی صورت میں کمشن آزادنہ سفارشات مرتب کر سکے گا جس کی ایک خاتون ممبر کا ایسے فرقے سے تعلق ہو جو خواتین کو تشد د کی صورت میں خاوند سے علیحدگی کا طلاق کا حق ہی نہ دیتا ہو؟ یہ تحفظات یہی ختم نہیں ہوتے بلکہ کمشن کی ایک ممبر کا راہبہ ہونا بھی کئی سوالات اٹھاتاہے‘ ایک خاتون جسے ازدواجی معاملات اور گھریلو تشدد (ڈومیسٹک وائلنس) کا تجربہ نہ ہو وہ کیسے خواتین کے تشدد کے حوالے سے آگاہ کرسکتی ہیں یا تجاویز /سفارشات دے سکتی ہے۔ کاتھولک چرچ کے ساتھ وابستہ راہبائیں (نن) مخصوص چاردیواری اور حالات کے اندر زندگی گزارتی ہیں ایک طرح سے باہرکے حالات سے لاعلم ہوتی ہیں‘اس صورت میں وہ کس طرح سے اقلیتی خواتین کی کلی طور پر نمائندگی کر سکتی ہیں‘مخصوص حالات کے تحت رہنے کی وجہ سے عام خواتین اور میڈیا کی ان تک رسائی ممکن نہیں ہوتی پھر کس طرح سے یہ عام خواتین کے مسائل سے آگاہی حاصل کرسکیں گی اور ان کی نشاندہی کرسکیں گی‘ یہ وہ تحفظات ہیں جو قومی کمشن برائے وقار نسواں میں ایک راہبہ کی تعیناتی کے حوالے سے سامنے آرہے ہیں‘ وزیر اعظم پاکستان کو ان تحفظات کا جائزہ لیتے ہوئے اس تقرری پر نظر ثانی کرنی چاہئے اور کسی مخصوص جماعت یا فرقہ سے تعلق رکھنے والی خاتون کے بجائے کسی اقلیتی پارلیمنٹرین خاتون یا قانون دان کو کمشن کا ممبرمقرر کرنا چاہئے تاکہ اقلیتی خواتین کے حقوق کا بھرپور تحفظ ہوسکے اور کمشن کا کام بھی متاثر نہ ہو۔

Authors

Hum Daise
ADMINISTRATOR
PROFILE

Posts Carousel

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked with *

Latest Posts

Top Authors

Most Commented

Featured Videos

Authors