مدیراعلی: ندیم اجمل عدیم



Warning: Attempt to read property "ID" on bool in /home/u808162710/domains/humdaise.com/public_html/wp-content/themes/pressroom/shortcodes/single-post.php on line 337

Warning: Attempt to read property "display_name" on bool in /home/u808162710/domains/humdaise.com/public_html/wp-content/themes/pressroom/shortcodes/single-post.php on line 337

Warning: Attempt to read property "ID" on bool in /home/u808162710/domains/humdaise.com/public_html/wp-content/themes/pressroom/shortcodes/single-post.php on line 337

Warning: Attempt to read property "ID" on bool in /home/u808162710/domains/humdaise.com/public_html/wp-content/themes/pressroom/shortcodes/single-post.php on line 339

Warning: Attempt to read property "display_name" on bool in /home/u808162710/domains/humdaise.com/public_html/wp-content/themes/pressroom/shortcodes/single-post.php on line 339

Warning: Attempt to read property "display_name" on bool in /home/u808162710/domains/humdaise.com/public_html/wp-content/themes/pressroom/shortcodes/single-post.php on line 339

Warning: Attempt to read property "ID" on bool in /home/u808162710/domains/humdaise.com/public_html/wp-content/themes/pressroom/shortcodes/single-post.php on line 341

ظہور چوہان’ ایک مکمل شاعر اور مکمل انسان

ظہور چوہان’ ایک مکمل شاعر اور مکمل انسان

ندیم اجمل عدیم (برطانیہ)

ظہور چوہان کی دھیمی سی مسکراہٹ نے مجھے مجبور کر دیا تھا کہ ان سے سلام دعا لی جائے ‘ملتان ریلوے اسٹیشن کے ایک ٹی سٹال پر ان کے ساتھ ایک چائے کی پیالی سے گپ شپ شروع ہوئی اور پھر ریڈیو اسٹیشن کے سامنے “بالی کے ہوٹل” پر بھی یہ سلسلہ جاری رہا ۔ بالی کے ہوٹل پر ریڈیو ملتان کے موسیقار ، اینکر، پروڈیوسرز یعنی فنون لطیفہ سے وابستہ سب لوگ مل جاتے ۔ اور ہم دنیا جہان کی معلومات کے خزانے اپنے ساتھ لے آتے تھے۔ میں اُن دنوں ایم ڈی اے میں پی آر او اور غیر شادی شدہ تھا۔ ایک روز ظہور چوہان نے مجھ سے پوچھا اس کے علاوہ کیا کرتے ہیں تو میں نے بے اعتنائی سے کہا کبھی کبھار اچھے شاعر کو پڑھ لیتا ہوں اور شعر بھی کہنے کی کوشش کرتا ہوں اس پر موصوف مجھ سے اکثر شعر سنے اور اچھے شعر پر داد بھی کمال کی دیتے مگر ابھی یہ مجھ پر مکمل آشکار نہیں ہوئے تھے کہ موصوف بھی شعر سے ہی وابستہ ہیں’ مجھے یاد ہے کہ مجھے انہوں نے ایک غزل کے شعر پر رائے اور مشورہ دیا تو میں چونک گیا کہ ہو نہ ہو یہ بندہ شاعر ہے میں نے انہیں کہا آپ بھی شعر کہتے ہیں ۔ کچھ سُنائیے اس پر انہوں نے بہت عجزو انکساری سے غزل کے چند شعر سنائے۔ جو مجھے یاد ہو گئے۔ان کی غزل کا مطلع آج بھی میرے کانوں میں رس گھولتا ہے

مثلِ ہوائے تُند خُو شام و سحر پکارتے——–
ہم نے کسی کے ہجر میں دیکھے ہیں گھر پکارتے

اور

گلہ کسی سے کروں تو کیسا کہ خود ہی چھاؤں سے بے خبر تھا
جسے میں رستے میں چھوڑ آیا بڑا تناور گھنا شجر تھا——

بس پھراس کے بعد ہماری ملاقاتوں کا سلسلہ ایسا شروع ہوا ۔ جو آج تک جاری ہے۔ان دنوں کبھی یہ میرے پاس آجاتے اور کبھی میں ان کے ہاں چلا جاتا’ ان دنوں میرے پاس ایک پرانی سی موٹر سائیکل ہوا کرتی تھی ۔ جس پر ظہور چوہان اور میں شام کے وقت تھوڑا گھوم پھر کر چائے پیتے اور اپنے اپنے گھروں کو چلے جاتے اور اگر کبھی زیادہ دن گزر جاتے تو ظہور چوہان میرے دفتر تشریف لے آتے اور پھر سے اگلے ہفتوں کے پروگرام طے پاتے ہم دونوں میں ایک قدر مشترک تھی کہ ہم مشاعروں میں جانے سے بہت کتراتے تھے اس کی وجہ وقت کے ضیاع سے بچنا ہوتا تھا اور اگر کبھی کسی مجبوری کے تحت کسی مشاعرے میں جانا پڑ جاتا تو پہلے پہل شعر پڑھ کر ہم وہاں سے نکل آتےظہور چوہان دوستی کو اعتبار بخشنے میں لاثانی ہیں۔ جس سے ان کی دوستی ہو جائے وہ چاہے بچہ ہو ، جوان ہو یا بزرگ ، ظہور چوہان کے گھر کا فرد بن جاتا ہے’ میں نے ظہور چوہان کو عام بول چال میں بے ہودہ زبان استعمال کرتے ہوئے آج تک نہیں سُنا ‘ اپنے ان دوستوں کے لیے جو لاپرواہی کے سبب تعلیم حاصل نہ کر سکے اُنہیں ہمیشہ دُکھی پایا ہے ۔ اگر میں کہوں کہ ظہور چوہان ایک مکمل اعلی شخصیت ہیں تو غلط نہ ہو گا۔ ان کی ظرافت اور چھیڑ چھاڑ بھی بہت معصومانہ رہی ہے -اب ظہور چوہان کی شاعری پر بات کرتے ہوئے مجھے ان کی شخصیت کو بھی ساتھ رکھنا ہے ‘ ظہور چوہان ہر وقت کسی گہری سوچ میں گُم اور اپنے ارد گرد کے ماحول کو اپنے اندر محسوس کرتے ہیں اور اسے شعری قالب میں ڈھال دیتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے اشعار میں زندگی اور زندگی سے جڑی باتیں اتنی خوبصورتی سے پروئی ہوئی ہوتی ہیں کہ شعر سننے والا دنگ رہ جاتا ہے’ ظہور چوہان علمِ عروض پر بھی مکمل دسترس رکھتے ہیں ‘ اور انہوں نے اپنی کتب میں مختلف بحور میں شعر کہہ کر اس بات کو ثابت بھی کیا ہے ۔ انہوں نے شاعری میں جتنا بھی کام کیا ہے وہ بہتر سے بہتر کا تسلسل ہے کوئی ناقد ان کے کلام کو مضامین کی تکرار نہیں کہہ سکتا ۔ وہ اپنے اشعار میں نئے نئے مضامین باندھتے ہیں یہی نہیں ان کی کتابوں کے نام بھی اچھوتے ہیں’ ۱ہجر اک مسافت ہے-۲پسِ غبار اک ستار ہ -۳گونجی صدا حویلی میں اور روشنی دونوں طرف-ظہور چوہان لفظ کو برتنے کا ہنر بخوبی جانتے ہیں وہ اپنے ہم عصر اور سینیر شعرا کرام میں یکساں مقبول ہیں ‘ اور اپنا ایک خاص مقام اور پہچان رکھتے ہیں’ وہ معاشرتی ناہمواریوں سے پریشان ہو کر خاموش نہیں ہوتے بلکہ نئی صبح کو خوش آمدید کہنے کے لیے رات بھر جاگتے اور شعر کہتے ہیں اور یہ رویہ عمومی نہیں- قدرت نے انہیں صوفیانہ طبیعت دے کر بھیجا ہے’ اسی لیے وہ ساری کائنات کو چہچہاتا دیکھنا چاہتے ہیں اور یہ روشنی کی امید ان کے کلام میں جگہ جگہ ملتی ہے ۔ظہور چوہان کا شعری سفر ابھی جاری ہے’ ان کا مقام متعین کرنے والے ان کی قامت کے معترف ہیں اس کی وجہ ان کا منفرد لب و لہجہ، خیال آفرینی اور ندرت ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ ظہور چوہان کا نام اردو غزل کے شعرا میں ہمیشہ جگمگاتا ہوا نظر آئے گا۔

Posts Carousel

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked with *

Latest Posts

Top Authors

Most Commented

Featured Videos