Author HumDaise View all posts
تبصرہ : پروفیسرڈاکٹر انوار احمد
کل رات ایک دوست ندیم اجمل عدیم کے دو شعری مجموعے لائے ایک اردو میں تھا انور جمال کے فلیپ کے ساتھ دوسرا پنجابی میں ” ہوا دی کفنی ” نجم حسین سید اور ہمارے پیارے فیض عابد عمیق کے ہم نشیں دکھائی دینے والے زاہد حسن کے فلیپ کے ساتھ آج صبح جب میں نے اس کا انتساب دیکھا ” اردو تے پنجابی ادب دی چپ چاپ خدمت کرن والی شخصیت عرش صدیقی ہوراں دے ناں ” تو بے اختیار ہوگیا اس ارادے سے یہ مجموعہ دیکھنے لگا کہ اگر گوڑھی یا گاڑھی پنجابی ہوئی تو سجاد نعیم سے مدد لوں گا مگر اس شاعر کے دردیلے الاپ نے تڑپا کے رکھ دیا ۔یہ باتیں رسمی لگیں گی اگر میں اس سوال کا جواب نہ دوں کہ ایسا کیوں ہوا ؟
ہمارے پیارے احمد سلیم فیض صاحب کے لاڈلے تھے وہ ان کے پیچھے پڑ گئے کہ اپنی ماں بولی میں لکھیں ان کے بقول فیض احمد فیض نے کہا ‘یہ جو اردو کے شاعروں میں میں نے تھوڑا بہت اپنا بھرم قائم کر رکھا ہے وہ پنجابی میں اتر کے گنوا دوں ؟ پنجابی میں تو شاہ حسین بیٹھا ہے ، وارث شاہ ہے ، سلطان باہو ہے ، بلہے شاہ ہے’ ۔۔۔ بہرطور فیض نے آخر آخر میں پنجابی میں لکھا اپنے نقطہ نظر کے ساتھ اپنے سوالوں کے ساتھ مگر اپنے پنجابی شعروں میں ربا سچیا کہہ کے بے دھڑک اور بے تکلف وہ سوال کر ڈالے جو اردو کے حجاب میں شاید نہیں کر سکتے تھے ۔
ندیم اجمل عدیم کہتے ہیں کہ یہ مجموعہ 1991 میں چھپا تھا اب 2024 میں ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ( شاید انگلستان میں لورپول میں کام کرنے اور رہنے کے بعد گویا کچھ وسائل میں اضافے کے بعد) دوبارہ چھاپ رہا ہوں کہ اس میں شاہ مکھی کے ساتھ گورمکھی رسم الخط میں بھی ان کا کلام ہے مجھے کتاب میں کہیں یہ اشارہ نہیں ملا کہ گورمکھی میں ان کا یہ پورا کلام ہے یا منتخب حصہ کہ اس کی ضخامت کم ہے (72 صفحے شاہ مکھی 59 صفحے گورمکھی )
آئیے عدیم کے کلام کی طرف
ملاں واسطے حور شراب
سادہ دل دے ڈر لئی اگ
۔۔۔
میلے دے وچ ٹھیلا لایا
فیر وی یار کمائے اتھرو
ہر خواہش دفنا دتی اے
نئیں گئے دفنائے اتھرو
۔۔۔
اتھرو اوتھے لے جاندے نیں
جتھے تیکر چھل نئیں جاندی
۔۔
ورھیاں دا جگراتا اے
جاگاں کی تے سوواں کی ؟
ویہڑے غربت نچے تے
ونڈاں کی تے کھوواں کی ؟
گھر دا چانن ہندیاں نیں
دھیاں کی تے نوواں کی !
۔۔۔
دھی دے سر تے چنی نئیں جے اللہ خیر کرے
چودھریاں دے بنے ماں نال توڑن گئی سی ساگ
۔۔ ۔
عمروں ڈھلدی دھی دی دسو
کون سنے گا واج
پگاں والے پگاں اتے
لکھ لیائے نیں
دھی مگروں ،تے پہلوں داج
(واج آواز کو کہتے ہیں اور داج جہیز کو مگروں پیچھے ۔ بیٹے والے عموما پگ والے یا چودھری بنے بیٹھے ہوتے ہیں بیٹے کے رشتے کا غرور لے کر )
عدیم کی ایک نظم ہے ” تقدیر “
پھٹے پرانے کپڑے پہن کے محض ایک چائے کا پیالہ یا رات کی روٹی کے دو نوالے لے کر اپنے ٹاٹ سکول میں جاتے ہیں تو تختی پر لکھ کر اونچی آواز میں ماسٹر کے کہنے پر دہراتے ہیں
“الف توں اللہ
ب بندہ تے
پ توں آکھن پکھ (بھوک )
ایس توں اگے او کی جانن
لکھ دتی اے
اوہناں او تحریر
ہار کے جس نوں کیہ دیندے نیں ما، پے
بس تقدیر ! “
ایک نظم کرماں والا ہے مجید امجد کی ایک بہت بڑی نظم یاد دلاتا ہے جیون دیس جس میں زندگی کے موڑ پر زخمی کلیاں بیچتا ایک بالک ہے
اس میں بھی کرماں والا ایک بیٹا ہے جو گھر سے گھگو گھوڑے لے کر بازار میں بیچنے یا امیروں کے بچوں کی توجہ جذب کرنے نکلا ہے
دل وی ڈب ڈب جاندا اے
پراو کرماں والا ویکھو
ٹریا ٹریا جاندا اے
اپنے کھیڈ کھڈونے چھڈ کے
سارا شہر کھڈاوندا اے”
ایک نظم وزیر اعظم یا حاکم کے نام ہے ‘ ملزم یار ‘
ملزم یار وزیر اعظم
جرم ترا جے نئیں وی من لے
پیش کچہری دے وچ ہو جا
(اور تو جو جو عدالت جیل کچہری سے بھی پہلے پولیس تشدد دیکھے گا تو پتہ چلے گا تیرے بے قصور ہونے کا نعرہ لگانے والے لاکھوں کروڑوں کے ساتھ ہوتا کیا ہے )
اپنا موتر آپ ای پینا
سب تیری سرکار نے دتا
توں اپنی سرکار دے صدقے سانوں پیندی مار دے صدقے
بس اک واری اندر ہو جا
مستا مست قلندر ہو جا “
ایسا نہیں ہمارے شاعر کے پاس نوحے ہی ہیں وہ پنگھٹ پہ پنہاریاں نہیں دیکھتا یا کوئی چہرہ اس کے دل میں کھبتا نہیں
اوہنے کھوہ تے پانی بھریا
تے میں رج رج بھریاں اکھاں
۔۔۔
چاندی ہتھ نہ لگی تے
کجل ، کوکا دیواں گا
اس سے پہلے میں اس کی نظم فادرز ڈے پر جذباتی ہو کے لکھوں یا خونی برج کے بارے میں اس کے شعر کی تشریح کروں بس یہ سن لیں کہ اس کتاب کو نستعلیق مطبوعات اردو بازار لاہور نے شائع کیا ہے اور بہانہ جو مفت خوروں کو شرمندہ کرنے کے لئے قیمت بھی ڈھائی سو روپے رکھی ہے
Leave a Comment
Your email address will not be published. Required fields are marked with *