مدیراعلی: ندیم اجمل عدیم


دارلامان اپنو ں کے ظلم وستم کا شکار خواتین کے لئے پناہ گاہ

دارلامان اپنو ں کے ظلم وستم کا شکار خواتین کے لئے پناہ گاہ

 

 

بلال حبیب

رحیم یارخان کے نواحی علاقے کی ایک باہمت خاتون نے گھریلو تشدد سے بچنے اور حفاظت کے لیے دارالامان (شیلٹر ہوم) میں پناہ حاصل کی تھی۔ حنا خان نے چیلنجوں سے بھرے سفر کا آغاز مجبور ہو کر کیا تھا۔ ایک ایسا سفر جس نے بالآخر اسے بدسلوکی کے طوق سے آزاد ہونے کی طاقت دی تھی۔ حنا کی آزمائش دوسرے لوگوں کی طرح شروع ہوئی تھی، بند دروازوں کے پیچھے چھپی ہوئی تھی جہاں چیخیں اکثر خاموشی میں ڈوب جاتی تھیں۔ وہ گھر جو اس کی پناہ گاہ ہونا چاہیے تھا خوف اور عذاب کی جگہ بن چکا تھا۔ شادی کے پہلے 3 ماہ تو اچھے گزرے تھے لیکن اس کے شوہر کے ہاتھوں جسمانی اور جذباتی زیادتیوں کو برداشت کرنا ایک سنگین معمول بن گیا تھا۔ حنا کے مطابق وہ دو سال تک مسلسل خوف میں رہی تھی، یہ نہیں معلوم تھا کہ اس کے شوہر کو اگلا غصہ کب آئے گا۔ لیکن وہ جانتی تھی کہ اپنے اور اپنے بچے کے لیے ایک راستہ تلاش کرنا ضروری بن چکا تھا۔ حنا نے بتایا کہ بچپن کی ایک سہیلی کو میرے معاملات معلوم تھے، اس نے مجھے حوصلہ دیا جب کہ والدین کی طرف سے مجھے صرف سسرال سے بنا کر رکھنے کا ہی کہا جاتا تھا۔ حنا نے مقامی حکام اور گھریلو تشدد سے نمٹنے کے لیے خواتین وکلاء سے اس سلسلہ میں بات کی۔ اس صورت حال کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے، اسے دارالامان میں پہنچا دیا گیا۔ دارالامان میں حنا کو حفاظت، مشاورت اور قانونی مدد بھی، اس کے ساتھ تعلیم و ہنر سیکھنے کا موقع بھی فراہم کیا گیا۔ حنا نے اعتراف کیا، پہلے تو میں ہچکچاہٹ کا شکار تھی، یقین نہیں تھا کہ ہمارا کیا انتظام ہو گا۔لیکن دارالامان کے ماحول کو دیکھ کر سالوں بعد میں نے امید محسوس کی۔ دارالامان نے حنا اور اس کے بچے کو ایک محفوظ ماحول فراہم کیا، جو خوف سے پاک تھا یہاں انہیں دوسروں کی صحبت میں سکون ملا جنہوں نے اسی طرح کے سفر کو طے کیا تھا۔ حنا کی کہانی ان خواتین کے لئیے مثال ہے جو مشکلات کا سامنا کرنے کے باوجود اپنے وقار اور حقوق کو دوبارہ حاصل کرنے کی ہمت کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ اسی طرح کے حالات میں دوسروں پر زور دیتی ہے کہ وہ اپنی خاموشی توڑیں اور مدد حاصل کریں۔
اسی طرح 20 سالہ سمعیہ کرن بھی اپنے سوتیلے باپ کے ظلم کا شکار ہو کر دارالامان میں پہنچی تھی۔ سمعیہ کو اس کا سوتیلا باپ تشدد کے ساتھ ایک بڑی عمر کے دوست سے شادی پر مجبور کرتا تھا۔ سمعیہ کی ماں اپنے شوہر کے غصے سے خوف کھاتی تھی لیکن اسے روک نہ پاتی تھی۔ سمعیہ نے بتایا کہ اس کے ایک قریبی رشتے دار نے حالات دیکھ کر اسے رازداری سے دارالامان میں پہنچایا تھا اور یہاں آنے پر مجبور اس کے ظالم سوتیلے باپ نے کیا تھا جو نا صرف اس پر تشدد کرتا تھا بلکہ اپنی من مانیاں بھی کرتا تھا۔ یہاں آ کر اسے تحفظ ملا ہے۔
شہزاد خان رند ایڈووکیٹ گزشتہ 10 سالوں سے دارالامان کے متعلقہ مقدمات میں بطور وکیل پیش ہو رہے ہیں۔ شہزاد کے مطابق
ان کے پاس دارالامان سے متعلقہ مختلف مقدمات آتے ہیں جن میں شادی شدہ خواتین کے مقدمات آتے ہیں جنہیں اپنے خاوند سے گھریلو تشدد، بے روزگاری، نشہ، گھریلو ضروریات اور جنسی ضروریات پوری نہ ہونے کی شکایت ہوتی ہے۔ ان خواتین کا گھریلو حالات سے دلبرداشتہ ہو کر وہ گھر چھوڑ کے چلی جاتیں ہیں۔ جب ان کے شوہروں سے ان کو کسی قسم کا خطرہ محسوس ہوتا ہے تو وہ ہم سے رابطہ کرتی ہیں اور ہم ان کو
دارالامان بھیج دیتے ہیں۔ ان کے پاس آنے والے 90 فی صد مقدمات میں خواتین اور انکے والدین یا تو ان پڑھ ہوتے ہیں یا بہت کم پڑھے لکھے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں قانونی معاملات سمجھنے میں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا یے۔
شہزاد بتاتے ہیں کہ ایسے مقدمات بھی سامنے آئے ہیں جن میں کنواری لڑکیوں کی شادی ان کے گھر والے نہیں کر رہے ہوتے۔ یا پھر ایسے گھر جن میں لڑکیوں کو فری ہینڈ دیا گیا ہوتا ہے اور ان کے معاملات کے بارے میں پوچھا نہیں جاتا۔ شہزاد نے بتایا کہ کوئی بھی خاتون جس کو حفاظت کا مسئلہ ہو یا جان جانے کا خطرہ ہو وہ دارالامان میں جانے کے لئیے عدالت سے، پولیس سے اور وکلاء سے رابطہ کر سکتی ہے۔ اگر پولیس تعاون نہ کرے تو بھی ایک خاتون عدالت سے رابطہ کر سکتی ہے۔ قانون کے مطابق پولیس ایک خاتون کا 161 دفعہ کے مطابق بیان ریکارڈ کرتی ہے جبکہ عدالت 164 دفعہ کے تحت بیان ریکارڈ کرتی اور اس خاتون کی مرضی کے مطابق دارالامان بھجوا دیتی ہے۔خواتین کے حقوق کے حوالے سے کام کرنے والی معروف ایڈووکیٹ نوشین ہاشمی کے مطابق وہ دارالامان کی لیگل ٹیم کا حصہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دارالامان کا ماحول بہت اچھا ہے اور یہاں کی سپرٹنڈنٹ بہت بہتر طریقہ سے اس کا انتظام چلا رہی ہیں۔ ان کہنا تھا کہ خواتین کو تربیت کے لئیے باقاعدہ سیشنز بھی دئیے جاتے ہیں جس سے بہت سی خواتین کو ان کے والدین سے صلح کروا کے واپس بھی بھیجا گیا ہے۔ کم عمر بچیوں کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ ان کو چائلڈ پروٹیکشن ڈیپارٹمنٹ کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ نوشین نے بتایا کہ دارالامان میں ووکیشنل ٹریننگ کے ساتھ نصابی تعلیم کی بھی سہولت موجود ہے۔ سیکیورٹی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ وہاں کسی کو بھی عدالتی اجازت نامے کے بغیر ملاقات کی اجازت نہیں چاہے وہ وکیل ہو یا کوئی اور۔ ان کا کہنا تھا کہ رحیم یارخان کا دارالامان ہر لحاظ سے خواتین کے لئیے مثبت کردار ادا کر رہا اور وہ خود بھی کئی خواتین کو وہاں بھمجھوا چکی ہیں۔ایک خاص وقت تک یہاں خواتین کو رکھا جاتا ہے اور اگر کسی نے زیادہ عرصہ رہنا ہو تو اس کو لاہور بجھوا دیا جاتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے پاس ایسی کئی کامیاب خواتین کی مثالیں ہیں جو اب خوشحال زندگی گزار رہی ہیں۔فرحان عامر ایڈووکیٹ جو گزشتہ 15 سالوں سے سوشل ورک کے ساتھ منسلک ہیں کا کہنا ہے کہ عدالتی حکم کے مطابق ہی دارالامان کی انتظامیہ کام کرتی ہے تاہم اگر دارالامان میں مقیم کوئی خاتون عدالتی اجازت کے باوجود کسی نہ ملنا چاہے تو اسے مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ فرحان کا کہنا ہے کہ زیادہ تر خواتین گھریلو تشدد اور عدم مساوات کا شکار ہو کر دارالامان آتی ہیں۔ اس سلسلہ میں مسلسل تربیت، آگاہی اور سخت قانون سازی کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی عورت ظلم کے خلاف کھڑی بھی ہو تو بات طلاق تک پہنچ جاتی ہے اور طلاق یافتہ خواتین کا ہمارے معاشرے میں جینا آسان کام نہیں۔رحیم یارخان میں دارالامان کا قیام 2005ء میں ہوا۔ یہاں خواتین 3 ماہ تک قیام کر سکتی ہیں اور یہاں مکین خواتین کو 3 وقت کا کھانا دیا جاتا ہے۔ ان خواتین کو بیوٹیشن، دستکاری اور دیگر ہنر سیکھنے کے مواقع بھی فراہم کئیے جاتے ہیں۔ سپرٹنڈنٹ دارالامان زوبیہ مدثر کے مطابق گزشتہ سال 2023ء میں 2608 خواتین نے دارالامان میں پناہ حاصل کی تھی۔ ان خواتین کو ہر طرح کی مدد، طبعی سہولیات اور قانونی معاونت بھی دی تھی۔ اس وقت دارالامان میں 10 سے زائد خواتین رہائش پذیر ہیں۔ زوبیہ کا کہنا ہے کہ ہمارا ادارہ دن رات کام کر رہا ہے اور ہم خدمت کر رہے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود کئی کیسز رپورٹ نہیں ہوتے۔ ان کا کہنا تھا کہ قانونی معاملات میں مقامی وکلاء کی ٹیم رضاکارانہ طور پر ان کی مدد کرتی ہے۔
(نوٹ۔ نام اور مخصوص تفصیلات کو فرد کی شناخت اور رازداری کے لیے تبدیل کر دیا گیا ہے۔)

HumDaise
ADMINISTRATOR
PROFILE

Posts Carousel

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked with *

Latest Posts

Top Authors

Most Commented

Featured Videos