مدیراعلی: ندیم اجمل عدیم


خاموشی ٹوٹنے کا آغاز

خاموشی ٹوٹنے کا آغاز

    Author Editor Hum Daise View all posts

 

 

انیسہ کنول
پاکستان میں بچوں کے ساتھ محرم رشتوں کے ہاتھوں زیادتی خاموشی ٹوٹنے کا آغاز ایسے ہے کہ
پاکستان جیسے روایتی اور مذہبی معاشرے میں جہاں خاندان کو سب سے محفوظ ادارہ سمجھا جاتا ہے، وہاں اگر کوئی بچہ اپنے ہی محرم رشتہ دار کے ہاتھوں جنسی زیادتی کا شکار ہو جائے تو یہ نہ صرف ایک فرد کا سانحہ ہوتا ہے بلکہ پورے معاشرتی ڈھانچے پر سوالیہ نشان بن جاتا ہے۔ ماضی میں ایسے واقعات کو خاندانی عزت اور بدنامی کے خوف سے چھپا لیا جاتا تھا، لیکن اب کچھ بہتری یہ آئی ہے کہ ایسے کیسز رپورٹ ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ یہ تبدیلی اگرچہ سست ہے، مگر امید کی کرن ضرور ہے۔
بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی ایک عالمی مسئلہ ہے، مگر پاکستان میں یہ ایک خاص پیچیدگی رکھتا ہے کیونکہ یہاں اکثر مجرم بچے کے قریبی عزیز، جیسے چچا، ماموں، والد، یا بھائی ہوتے ہیں۔ ایسے رشتوں کے باعث بچے نہ صرف ذہنی دباؤ کا شکار ہوتے ہیں بلکہ اکثر ان کے پاس مدد مانگنے کا کوئی محفوظ راستہ نہیں ہوتا
سب سے بڑی رکاوٹ “خاندانی عزت” اور “بدنامی” کا خوف ہوتا ہے۔ اکثر والدین یا سرپرست ایسے واقعات کو چھپا لیتے ہیں تاکہ خاندان کی ساکھ متاثر نہ ہو۔
بہت سے والدین اور بچے اس قابل ہی نہیں کہ وہ اس عمل کو زیادتی سمجھ سکیں، خاص طور پر جب زیادتی کرنے والا شخص کوئی “محرم” ہو۔
پولیس اور عدالتی نظام میں موجود خامیوں، کرپشن اور حساسیت کی کمی کے باعث متاثرہ خاندان مقدمہ دائر کرنے سے گریز کرتا ہے کیونکہ بعد میں انہیں ایک لمبے پروسیس سے گزرنا پڑتا ہے اور بعض اوقات ڈرا دھمکا کر بھی معاملہ دبا لیا جاتا ہے جس کی وجہ سے یہ افسوس ناک عمل درمیان میں میں بغیر کسی سزا کے ختم کر دیا جاتا ہے
اکثر متاثرہ بچوں اور ان کے خاندانوں کو مجرم کی جانب سے دھمکایا جاتا ہے یا مالی دباؤ میں رکھا جاتا ہے
گزشتہ کچھ برسوں میں، میڈیا، سوشل میڈیا، این جی اوز، اور انسانی حقوق کے اداروں نے اس موضوع پر روشنی ڈالنا شروع کی ہے۔ مشہور کیسز جیسے قصور ویڈیو اسکینڈل، زینب قتل کیس، اور دیگر واقعات نے معاشرے کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ایسے ہی حالیہ کچھ دن کے وقفے سے 2 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جس میں بہاولپور سے تعلق رکھنے والی 10 سالہ بچی اپنے 2 ماموں اور ان کے 2 دوستوں کے ہاتھوں گینگ ریپ اور پھر قتل کا شکار ہو گئی اور کچھ دن بعد روالپنڈی میں معصوم کرسچن بچی بھی اپنے ہی 2 عدد ماموں کے ہاتھوں گینگ ریپ کے بعد قتل کی گئی اور یہ کیسز جیسے رپورٹ ہوئے فورآ مجرموں کو سزا دی گئی
اس بارے میں (جام محمد خالد بوہنہ ایڈووکیٹ جنرل سیکرٹری بار تحصیل لیاقت پور ) کا کہنا ہے

قانون سازی میں بہتری آئی ہے جیسے Zainab Alert Bill 2020 سوشل میڈیا پر آواز اٹھانے کا رجحان بڑھا رہا ہے
اگرچہ آگاہی بڑھی ہے، مگر دیہی علاقوں، مذہبی طبقات اور کم پڑھے لکھے خاندانوں میں اب بھی ایسے کیسز کو چھپایا جاتا ہے۔ بچوں کے لیے نفسیاتی سپورٹ کا بھی شدید فقدان ہے۔ پولیس کا رویہ اکثر متاثرہ فریق کے لیے ہمدردانہ نہیں ہوتا والدین کو سکھایا جائے کہ بچوں کی باتوں پر توجہ دیں اور ان کے ساتھ دوستانہ رویہ رکھیں مجرموں کو جلد اور عبرتناک سزائیں دی جائیں تاکہ دوسرے لوگ عبرت حاصل کریں متاثرہ بچوں کو علاج اور مشاورت فراہم کی جائے تاکہ وہ دوبارہ معمول کی زندگی گزار سکیں
میڈیا کو ذمہ داری کے ساتھ ایسے مسائل کو اجاگر کرنا چاہیے، نہ کہ سنسنی پھیلانے کے لیے
پاکستان میں بچوں کے ساتھ محرم رشتوں کے ہاتھوں زیادتی ایک سنگین اور حساس مسئلہ ہے جس پر اب بات ہونے لگی ہے، جو خوش آئند ہے۔ معاشرے کو اس خاموش وبا کے خلاف متحد ہو کر کھڑا ہونا ہوگا۔ جب تک ہم اپنے بچوں کی حفاظت کے لیے جرات مندانہ فیصلے نہیں لیں گے، تب تک تبدیلی محض ایک خواب ہی رہے گی

Author

Editor Hum Daise
ADMINISTRATOR
PROFILE

Posts Carousel

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked with *

Latest Posts

Top Authors

Most Commented

Featured Videos

Author