مدیراعلی: ندیم اجمل عدیم


اسلم رسول پوری ہمیشہ زندہ رہیں گے

اسلم رسول پوری ہمیشہ زندہ رہیں گے

 

 

ڈاکٹر نسیم اختر

فضا میں رہنے والی خنکی مسلسل دوسرے مہینے میں داخل ہوچکی تھی ،ملک کے دیگر حصوں کی طرح ملتان کی فضا بھی نم زدہ تھی۔انسانی فطرت ہے کہ ایسے موسم میں ہم تھوڑےسے تنہائی پسند ہوجاتے ہیں۔خورشید کی اجارہ داری کے عالم میں جب آفتاب نیل گگن میں پردہ نشین ہوجائے تو وہاںاداسی فطرتی ہے کیونکہ ہم سورج کے مسلسل چمکنے والی فضاکے عادی ہیں۔اور جب یہ ہماری نظروں سے اوجھل ہوجائے تو ایسے حالات میں اداسی طبیعت کا حصہ بن جاتی ہے۔اسلم رسول پوری بھی توعالم ادب کا خورشید تھے۔جن کی کرنوں سے ثقافت،لسانیات،شاعری،موسیقی اور تنقیدکے علوم کی کرنیں پھیلتی تھیں۔یکم فروری کو محقق،نقاد،ادیب،قانون دان،دانشوراور ماہر لسانیات یکم فروری کو داغ مفارقت دے گئے۔اداسی کی اس فضامیںاس خبر نے مزید اداس کردیا۔ میں جب ایم اے کی طالبہ تھی تو میری اسلم رسول پوری سے نیشنل سنٹر ڈیرہ غازی خان میں پہلی ملاقات ہوئی۔ نیشنل شنٹر میں اس وقت ادبی محافل ہوتی تھیں۔ان محافل کا اہتمام جاوید احسن (مرحوم)کیاکرتے تھے۔سرائیکی افسانہ نگار محترمہ بشریٰ رفیق،محترمہ سعیدہ افضل(تین عورتیں تین کہانیاں)حمید الفت ملغانی اور اسماعیل احمدانی سمیت ادب سے تعلق رکھنے یاادب سے محبت کرنے والے ان ادبی محافل کا مستقل حصہ ہوتے۔نیشنل سنٹر میں شرکا اپنے ذوق کے مطابق گفتگو کرتےاور ان پر خوب تنقید بھی ہوتی۔ جناب اسلم رسول پوری ہمیشہ مثبت تنقید کرتے اور ان کی تنقید ہم طالب علموں کے لئے رہنمائی بھی ہوتی اور حوصلہ افزائی بھی۔وہ ایک ترقی پسند ادیب اور دانشور تھے۔یہاں تمام گفتگو علمی بنیاد پر ہوتی۔اسلام آباد میں مقیم آل پاکستان نیشنل سنٹر کے ڈائریکٹر جنرل خالد رشید ایک بار ڈیرہ غازی خان آئے تو اسلم رسول پوری کے ساتھ ملاقات کا موقع ملا۔ خالد رشید صاحب کا ایک فیملی کیس اسلم رسول پوری صاحب کے پاس تھا ۔میں نے انہیں یہاں بھی انتہائی مدبر اور مدلل پایا۔ڈی جی آل پاکستان نیشنل سنٹر اسلام آباد خالد رشید ہمارے عزیز ہونے کی وجہ سے یہ ملاقات ڈیرہ غازی خان میں ہمارے گھر ہوئی۔ انہوں نے اس ملاقات میں ہر بات دلیل سےکی ۔میں ان کی شخصیت اور بردباری سے بہت متاثر ہوئی۔ بہاالدین زکریا یونیورسٹی میں جب میری سلیکشن ہوئی اورسرائیکی شعبہ میں استاد کی حیثیت سے فیکلٹی کا حصہ بنی تو پھر اسلم رسول پوری سے دوبارہ رابطوں کاسلسلہ شروع ہوا جو باقاعدگی سے جاری رہا۔ 2007میں اسلم رسول پوری صاحب سرائیکی ایریا سٹڈی سنٹر آئے۔اسلم رسول پوری ایک بڑے اور مہان شخصیت تھے جنہوں نےسرائیکی ادب اور زبان کوشناخت اور پہچان دلائی اور ایک مضبوط قلمکار کے طورپراس قافلے کانمایاں حصہ رہے۔ سندھ کے شعرا کے حوالے سے کام ہو یا تراجم کا ،انہوں نے عالمی ادب کے بھی سرائیکی میں تراجم کئے۔تنقیدی مضامین بھی انہوں نے بھر پور لکھے۔ان کے تنقیدی مضامین سرائیکی ادب کا ایکقیمتی اثاثہ ہیں۔ ۔سئیں اسلم رسول پوری یکم اکتوبر 1942کوجام پور کے مثالی علاقہ رسول پورمیں پیدا ہوئے۔ان کے والد عبدالحکیم ایک پڑھے لکھے باشعور اوروشن خیال شخصیت تھے۔ان کے نانا مولوی محمد موسی ٰ خان اور ماموںمحمد اسماعیل احمدانی بھی پڑھے لکھے انسان تھے ۔اسلم رسول پوری نے مڈل جے وی کے بعد بطور پرائمری سکول مدرس اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا اپنے ماموں صدارتی ایوارڈ یافتہ مصنف نامور قانون دان محمد اسماعیل خان احمدانی ایڈوکیٹ مرحوم کی سرپرستی میں سرائیکی ادبی سفر کا آغاز کیا مختلف رسائل اور اخبارات میں مضامین لکھے کچھ عرصہ شاعری بھی کی اور سرائیکی قاعدہ بھی لکھا ایم اے ایل ایل بی کرنے اور سرکاری ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد جام پور میں نامور ماہر قانون و سیاستدان میاں صادق حسین ایڈوکیٹ کی شاگردی میں بطور وکیل پریکٹس شروع کی ۔ سرائیکی ادب اور زبان کے فروغ اور اسکوپہچان دلانے کے لئےانہوں نےبھر پور طریقے سےکام کیا۔ اسلم رسول پوری سرائیکی سنگت خواجہ فرید سرائیکی ادبی سنگت بزم کیفی اور متعدد سرائیکی ادبی ثقافتی تنظیموں کی ہر موڑ پر مکمل حوصلہ افزائی کرتے رہے انہیں سرائیکی ادب اور تحقیق میں مکمل عبور حاصل تھااور سرائیکی حوالے سے ان کیکئیکتب شائع ہو چکی ہیں ۔ان میں سرائیکی زبان اتے لسانیات،نتارے،تلاوڑے،حمل لغاری دا منتخب کلام،سرائیکی لوک موسیقی،سرائیکی رسم الخط کی مختصر تاریخ،لسانی مضامین،سرائیکی ادب وچ معنی دا پندھ،سرائیکی زبان اوندا رسم الخط اتے اوازاں،لیکھے،بیدل سندھی،سرائیکی دیاں بجکار اوازاں،سرائیکی قاعدہ اردو بولنے والوں کے لئے،سچل سرمست دا منتخب کلام ،سرائیکی کے بارے سوال و جواب اور ارسطودی بوطیقاسمیت شامل ہیں۔ میرے لئے یہ کیا کم اعزاز ہے کہ انہوں نے اپنی کتاب ارسطو دی بوطیقا کا انتساب میرے نام کیاہے ۔یونانی نقاد ارسطو کی کتاب بوطیقا تھیوری میں ایک کلاسک کا درجہ رکھتی ہےان کی یہ کتاب کے انتساب میں جب میرا نام آیا تو میں اس لحاظ سے اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتی ہوں کہ ہمیشہ مثبت سوچ رکھنے والے ترقی پسند ادیب کی منفرد تحلیق میرے نام ٹھہری۔اسلم رسول پوری ہمیشہ بچیوں کی تعلیم کے بہت حامی تھے۔عصر حاضر میں وسیب کے تمام سرائیکی لکھاری انہیں اپنا استاد مانتے ہیں اسلم رسولپوری نے وکالت سے از خود ریٹائرمنٹ لے رکھی تھی اور اپنا چیمبر اپنی بڑی صاحبزادی سوشل ایکٹیویسٹ ثروت سحر ایڈوکیٹ کے حوالے کر دیا تھا۔میں جب اپنے بیٹے سجل کے ساتھ عمرہ پر گئی تومیں نے ان سے خود رابطہ کرتے ہوئے کہاکہ آپ دعاؤں میں شامل ہیں تو بہت خوش ہوئے۔میں نے آقائے نامدار سرکار دوعالم حضرت محمد ﷺکی رسالت بارگاہ میں سلام پیش کرتے ہوئےدعاکی۔ جناب اسلم رسول پوری کے انتقال کی خبر آئی تو سرائیکی ایریاسٹڈی سنٹر میں ایم فل کے پہلے سیشن کے ایک سکالر کا افسوس بھر اتعزیتی پیغام ملا۔جس میں میرے سٹوڈنٹ نےافسردگی بھرامیسج کیاکہ ، میم !تما م فکر کرنے والی شخصیات جارہی ہیں۔معاشرہ نجر تو نہیں ہوجائے گا۔ ہمارے ہاں فکری قحط شدت اختیار کرگیا تو مزاحمت کی ندیاں سوکھ جائیں گی۔ پھرکیاہوگا؟جناب اسلم رسول پوری اس دنیا سے تو چلے گئے ہیں لیکن وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ ان کا کام ان کی سوچ اور فکر کو لے کر ہم آگے چلیں گے۔ان کاخلا تو کبھی پورانہیں ہوسکے گالیکن ان کی کتب اور مضامین جن میں انہوں نے سرائیکی ادب اور زبان کو ایک نئی راہ پر چلایا تھا اس پر سفرآگے بڑھایاجائے گا۔ اسلم رسول پوری ہماری دعاؤں میں ہمیشہ رہیں گے ۔ہمیں اس پر یقین کرتے ہوئے اپنے آپ کو تسلی دینا ہوگی ۔درویش،عالم،بیراگی،دانشور،ادیب ،فقیر اور جوگی آئے ،بسے،اور اپنے وقت کے قرض ادا کئےاور چلے گئے،جو درعشق تھے،نہ جسم ٹھہرے نہ جاں ٹھرے۔سب اسی بستی کے باسی تھے۔ جاں دی،دی ہوئی اس کی تھی حق تو یوں ہے کہ حق ادا نہ ہو۔ جناب اسلم رسول پوری کی مگفرت اور درجات کی بلندی کے لئے میں بھی دعا کرہی ہوں اور آپ بھی ان کے لئے دعا کریں۔
(مضمون نگار پوسٹ ڈاکٹریٹ ہیں اور سرائیکی ایریا سٹڈی سنٹر جامعہ زکریا کی ڈائریکٹر ہیں)

HumDaise
ADMINISTRATOR
PROFILE

Posts Carousel

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked with *

Latest Posts

Top Authors

Most Commented

Featured Videos