Author HumDaise View all posts
جینٹ سمیر
امیر لوگوں سے لے کر متوسط طبقے تک پاکستان کے ہر گھر میں گھریلو ملازمین موجود ہیں‘ کچھ لوگ تو فیشن کے طور پر گھریلو ملازم رکھتے ہیں تاکہ ان کا رتبہ دوسروں سے الگ نظر آئے جبکہ زیادہ تر گھروں میں ضرورت کے تحت گھریلو ملازم رکھے جاتے ہیں‘ ان میں بڑی تعداد ورکنگ کلاس سے تعلق رکھنے والے افراد کی ہے‘ وہ خواتین جو سرکاری یا پرائیوٹ ملازمت کرتی ہیں انہوں نے گھر کے کام کاج یا بچے سنبھالنے کے لئے گھریلو ملازم رکھے ہوئے ہوتے ہیں‘ گھریلو ملازم چاہے فیشن کے طور رکھے گئے ہوں یا ضرورت کے تحت دونوں کے حالات ایک جیسے ہیں‘ نہ تو ان کو مناسب اجرت دی جاتی ہے اور نہ ہی ان کو طبی سہولیات یا چھٹیاں ملتی ہیں‘عیدوں اور تہوارو ں کے موقع پر تو ان کا کام ڈبل ہوجاتا ہے کیونکہ جن گھروں میں یہ لوگ کام کرتے ہیں عید پر ان کے مہمان آنے ہوتے ہیں او ر ان مہمانو ں کی خاطر داری بھی انہیں گھریلو ملازمین کے ذمہ ہی ہوتاہے مگر یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ بیماری کی صورت میں بھی ان ملازمین کو چھٹی نہیں ملتی ہے‘ دیگر شعبہ جات میں کام کرنے کے لئے تو تعین ہوتاہے کہ کس عمر تک کے لوگ یہ کام کرسکتے ہیں‘مگر پاکستان میں گھریلو ملازمین کے لئے عمر کا کوئی تعین نہیں ہے‘ چھوٹے بچو ں سے لیکر بڑی عمر تک کے لوگوں کو آپ گھریلو ملازمین کے طور پر کام کرتا دیکھ سکتے ہیں۔ گھریلو ملازمین پر ہونے والے ظلم و ستم بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں‘ گھریلو ملازمین پر تشدد کے حوالے سے آئے روز میڈیا پر ایسے واقعات رپورٹ ہوتے ہیں جن کو دیکھ کر رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں‘جب کوئی ایسا واقعہ منظر عام پر آتا ہے تو ایک بار تو پوری سول سوسائٹی ہل کر رہ جاتی ہے‘ مذمت کے ساتھ ساتھ ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے موثر اقدامات کی آوازیں اٹھتی ہیں‘ مگر جیسے ہی یہ واقعہ پرانا ہوتا ہے رات گئی بات گئی کی مصداق ایسے کیسز بھی پس پردہ چلے جاتے ہیں او رآوازیں بھی خاموش ہوجاتی ہیں اس کی بڑی مثال کم عمر رضوانہ کی ہے جسے اسلام آباد میں ایک جج کے گھر میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا جس کے نتیجے میں اسے طویل عرصہ تک ہسپتال میں رہنا پڑا تھا‘ رضوانہ کا کیس منظر عام پر آنے کے بعد انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ کم عمر بچوں یا بچیوں کو گھریلو کا م کے لئے رکھنے پر پابندی عائد کی جائے اور سخت سزا مقرر کی جائے مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ مطالبہ بھی پس پشت چلا گیا۔سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطالبہ پر گھریلو ملازمین کے حقوق کے لئے ایکٹ توبنا لیا گیا ہے مگر اس پر عملدر آمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ پنجاب ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ 2019میں 15سال سے کم عمر تک کے بچوں کو گھریلو ملازم رکھنا جرم قرار دیا گیاہے‘ گھریلو ملازمین رکھنے سے قبل تحریری معاہدہ ہونا لازم قرار دیا گیاہے جبکہ کم ازکم اجرت کی ادائیگی اور چھٹیوں کے لئے مقررہ شیڈول پر عملد رآمد کو بھی لازم قرار دیا گیا ہے‘ اس ایکٹ پر عملد رآمد کے لئے پنجاب حکومت کی جانب سے گھریلو ملازمین کی رجسٹریشن کا کہا گیا تھا جس کے لئے لیبر ڈیپارٹمنٹ کو ذمہ داری سونپی گئی تھی‘ اس حوالے سے شروع میں تو لیبر ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے خاصی مستعدی دکھائی گئی تھی‘ گھریلو ملازمین کی رجسٹریشن کے لئے کیمپ لگائے گئے تھے جبکہ این جی اوز کے ساتھ مل کر رجسٹریشن کا آغاز بھی کیا گیا تھا مگر بعدازاں لیبر ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے یہ کام روک دیا گیا اور تاحال گھریلو ملازمین کی رجسٹریشن کا کام تعطل کا شکار ہے‘ جب گھریلو ملازمین کی رجسٹریشن ہی نہیں ہوگی تو ان کے لئے بنائے گئے ایکٹ پر عملد رآمد کیسے ہوسکتا ہے‘حکومت اگر حقیقت میں گھریلو ملازمین کو تحفظ دینا چاہتا ہے تو ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ 2019پر عملد رآمد کے ساتھ ساتھ ملک بھر میں گھریلو ملازمین کے طور پر کام کرنے والے افراد کی رجسٹریشن کو یقینی بنائے۔
Leave a Comment
Your email address will not be published. Required fields are marked with *