مدیراعلی: ندیم اجمل عدیم



Warning: Attempt to read property "ID" on bool in /home/u808162710/domains/humdaise.com/public_html/wp-content/themes/pressroom/shortcodes/single-post.php on line 337

Warning: Attempt to read property "display_name" on bool in /home/u808162710/domains/humdaise.com/public_html/wp-content/themes/pressroom/shortcodes/single-post.php on line 337

Warning: Attempt to read property "ID" on bool in /home/u808162710/domains/humdaise.com/public_html/wp-content/themes/pressroom/shortcodes/single-post.php on line 337

Warning: Attempt to read property "ID" on bool in /home/u808162710/domains/humdaise.com/public_html/wp-content/themes/pressroom/shortcodes/single-post.php on line 339

Warning: Attempt to read property "display_name" on bool in /home/u808162710/domains/humdaise.com/public_html/wp-content/themes/pressroom/shortcodes/single-post.php on line 339

Warning: Attempt to read property "display_name" on bool in /home/u808162710/domains/humdaise.com/public_html/wp-content/themes/pressroom/shortcodes/single-post.php on line 339

Warning: Attempt to read property "ID" on bool in /home/u808162710/domains/humdaise.com/public_html/wp-content/themes/pressroom/shortcodes/single-post.php on line 341

اے ڈی ساحل منیر ایک مدبر قانون دان شاعر اور عوامی رہنما

اے ڈی ساحل منیر ایک مدبر قانون دان شاعر اور عوامی رہنما

انٹرویوپیشکار : وقاص بھٹی

مسیحی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے معروف شاعر ،ادیب،صحافی اور سیاسی و سماجی رہنما اے ڈی ساحل منیر ایڈووکیٹ کی پیدائش دسمبر 1971 میں ضلع خانیوال کے مشہور گاؤں امرت نگر میں ہوئی اور انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم گاؤں کے مقامی سکول سے حاصل کی۔بعد ازاں انٹر میڈیٹ کا امتحان گورنمٹ ڈگری کالج میاں چنوں سے پاس کیا جبکہ بی اے، ایم اے اردو ،ایم اے سیاسیا ت، بی ایڈ اور ایل ایل بی کی ڈگریاں بہا الدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے حاصل کیں۔ علاؤہ ازیں ایم اے ایجوکیشن کا امتحان علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے پاس کیا’ ساحل منیر پیشے کے لحاظ سے ایک طویل عرصہ تک درس و تدریس سے وابستہ رہے اور سال 2020 میں شعبئہ تعلیم کو خیر آباد کہہ کر وکالت شروع کردی۔آجکل آپ بطور ایڈووکیٹ ہائیکورٹ میاں چنوں میں پریکٹس کررہے ہیں اور اسکے ساتھ ساتھ علاقہ کے ایک بڑے اقلیتی سیاسی دھڑے چوہدری سلامت گروپ کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے ہیں۔سیاسی وابستگی کے حوالے سے انکا گروپ اس وقت پی ٹی آئی کے ساتھ ہے اور حالیہ جنرل الیکشن میں انہوں نے اپنے حلقہ کے پی ٹی آئی امیدواران کو بھرپور سپورٹ کیا ہے ۔جہاں تک اے ڈی ساحل منیر کی ادبی و تخلیقی سرگرمیوں کا تعلق ہے تو انہوں نے میٹرک کلاس سے ہی لکھنا شروع کردیا تھا۔ انہیں کم عمری سے ہی شعرو شاعری سے رغبت تھی اورکالج کے زمانہ کے دوران مختلف بین الکلیاتی مشاعروں میں شمولیت کرتے ہوئےکالج کی طرف سے مختلف اعزازات حاصل کئے۔ 1991 میں جب آپ ملتان میں زیر تعلیم تھے تو اسی دوران ملتان سے شائع ہونے والے مختلف قومی و مقامی اخبارات کے ادبی ایڈیشنز و ادبی جریدوں میں کلام کی اشاعت کے ساتھ ساتھ مشاعروں میں بھی شمولیت کرتے رہے۔علاوہ ازیں آداب عرض ڈائجسٹ کے تحت ملک کے مختلف حصوں میں منعقد ہونے والے سالانہ مشاعروں میں بھی کلام پڑھنے کے مواقع میسر آئے جنہوں نے انکے تخلیقی شعور کو جلا بخشی۔ انہوں نے اردو کے ساتھ ساتھ پنجابی میں بھی شاعری کی ہے اور ماہنامہ تخلیق سمیت متعدد اخبارات و جرائد میں انکی پنجابی شاعری شائع ہوتی رہی ہے ۔ آپ شعبہ صحافت سے بھی منسلک رہے ہیں اور آپکے بے شمار کالمز روزنامہ دنیا پاکستان،جیو اردو اور دیگر قومی و علاقائی اخبارات و رسائل میں تسلسل سے شائع ہوئے ہیں۔ ۔2007میں انکا پہلا شعری مجموعہ عہدِاضطراب شائع ہوا جس نے ملک بھر کے ادبی حلقوں سے زبردست پذیرائی حاصل کی ۔انکی مزید دو کتابیں زیر طبع ہیں جو عنقریب اشاعت پذیر ہو جائیں گی

۔انکی ادبی و صحافتی خدمات کے اعتراف میں تادیب رائٹرز ایوارڈ سمیت اب تک مختلف تنظیموں کی طرف سے انہیں پانچ ادبی ایوارڈز مل چکے ہیں۔اے ڈی ساحل منیر ایڈووکیٹ پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کے بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے ہمیشہ سرگرم رہے ہیں اور اس بابت مختلف فورمز پر اپنا متحرک کردار ادا کرتے رہتے ہیں۔انکے بقول پاکستان کی تاریخ میں اقلیتوں کے اِنسانی حقوق کے حوالے سے عدم برداشت اور مذہبی انتہا پسندی کا جو بیانیہ مرتب ہوا اس کے تانے بانے بِلاشبہ ضیاء آمریت کے دور سے جا مِلتے ہیں۔ضیاء آمریت نے شرعی قوانین کے نفاذ کی آڑ میں اقلیتوں کے ساتھ جو امتیازی سلوک روا رکھا ا س نے انکے سیاسی،سماجی ،آئینی اور معاشی و معاشرتی وجود کو مفلوج کر کے رکھ دیا۔اس وقت سے لے کر اب تک مذہبی اقلیتوں پر امتیازی قوانین کے تحت لاتعدادجھوٹے مقدمات درج ہو چکے ہیں۔درجنوں بے بس و لاچار افراد اپنے ناکردہ گناہوں کی پاداش میں قید و بند کی صعوبتیں جھیل رہے ہیں اور ذاتی و کاروباری رنجشوں کی بنا پر انہیں مذہبی انتہا پسندی وجنونیت کا نشانہ بنایا گیاہے۔

ماضی میں اقلیتوں کے خلاف جلاؤ گھیراؤ کے مذموم واقعات کِسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔انکا کہنا ہے کہ برِ صغیر پاک و ہند کی اقلیتوں بالخصوص مسیحیوں نے قائدِ اعظم کی آواز پر لببیک کہتے ہوئے نہ صرف تحریکِ آزادی میں بھرپور حصہ لیا بلکہ قیامِ پاکستان کے بعد مہاجرین کی آباد کاری،پاک بھارت جنگوں اورتعلیم و صحت سمیت مختلف شعبہ ہائے زِندگی میں ا ناقابلِ فراموش خدمات سرانجام دیں لیکن نصاب و تاریخ کی کتب میں کہیں بھی انکا ذِکر نہیں ملتا اور پاکستان کے عام شہری کو حصول ِ آزادی کی تاریخ میں اقلیتوں کے کردار سے قطعی بے خبر رکھا گیا ۔جس کی وجہ سے اقلیتوں کے خلاف مختلف قسم کے تعصبات و امتیازات پروان چڑھے اور انکے قانونی و آئینی حقوق بری طرح پامال ہوئے۔وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان سمیت پوری دنیا میں محروم و پسماندہ طبقات کو قومی دھارے میں لانے اور اور ان کے مساویانہ حقوق و مراتب کو نافذ العمل کرناہی معراجِ انسانیت اوربنیاد پرستی و انتہا پسندی کے خاتمے کا ذریعہ ثابت ہو سکتا ہے۔لہذا پاکستانی اقلیتوں کے انسانی حقوق کے تناظر میں اربابِ بست و کشاد کا فرض ہے کہ مذہب و عقائد کی بنیاد پر استحصالی رحجانات کی حوصلہ شکنی کریں اور اقلیتوں کے خلاف پائے جانے والے تمام ایسے امتیازی قوانین پر نظر ثانی کریں جو معاشرے میں ان کی مساویانہ حیثیت و شناخت کو زِک پہنچاتے ہوئے ظلم و تشدد کو ہوا دیتے ہیں۔

Posts Carousel

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked with *

Latest Posts

Top Authors

Most Commented

Featured Videos