Author Editor Hum Daise View all posts
نورالعین
پاکستان میں گرمی کی شدت ہر گزرتے سال کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے، جس کی بڑی وجوہات میں عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلیاں، مقامی درختوں کی کٹائی، بڑھتی ہوئی آبادی اور شہری ترقی کا بے ہنگم پھیلاؤ ہے۔ خاص طور پر مئی سے اگست تک کے مہینے شدید درجہ حرارت اور لو کی لپیٹ میں رہتے ہیں، جس کے نتیجے میں ہیٹ سٹروک کے کیسز میں خطرناک حد تک اضافہ ہو جاتا ہے۔ یہ گرمی کی شدت اب صرف ایک موسمی رجحان نہیں رہی بلکہ انسانی صحت اور زندگی کے لیے ایک سنگین خطرہ بن چکی ہے، جس کی بدترین شکل ہیٹ سٹروک کی صورت میں سامنے آتی ہے۔ شہری اور دیہی علاقوں میں کام کرنے والے مزدور، بزرگ، بچے اور بیمار افراد اس شدید موسم کا سب سے زیادہ شکار ہوتے ہیں۔ درجہ حرارت اکثر 45 ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز کر جاتا ہے، جو انسانی جسم کے لیے جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے،خاص طور پر جب مناسب احتیاطی تدابیر اختیار نہ کی جائیں۔ ہیٹ اسٹروک روزمرہ کی زندگی کو مفلوج کر دیتا ہے۔ اس صورت حال میں ہیٹ اسٹروک سے بچنے کے لیے مؤثر حفاظتی اقدامات اور حکومتی حکمت عملی انتہائی اہمیت رکھتی ہے تاکہ قیمتی جانوں کی حفاظت کی جا سکے۔ ہیٹ اسٹروک اب صرف ایک وقتی مسئلہ نہیں رہا بلکہ یہ ایک مستقل موسمی خطرہ بن چکا ہے، خاص طور پر شہروں میں جہاں کنکریٹ کی عمارتیں اور درختوں کی کمی ماحول کو مزید گرم کر دیتی ہیں۔ ہر سال درجنوں افراد اس خاموش قاتل کا نشانہ بنتے ہیں جن میں مزدور، بزرگ اور بچے سر فہرست ہیں۔افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ہیٹ اسٹروک جیسے مسئلہ پر قابو ممکن ہے۔ صرف چند بنیادی احتیاطی تدابیر اختیار کر کے اس خطرے سے بچا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر دھوپ میں غیر ضروری طور پر نکلنے سے پرہیز کرنا، سر کو ڈھانپ کر رکھنا، پانی اور نمکیات کا وافر استعمال کرنا، ہلکے اور کھلے کپڑوں کا انتخاب کرنا، اور جسم کو ٹھنڈا رکھنے کے قدرتی طریقوں کا استعمال کرنا۔ لیکن ہمارے معاشرے میں بنیادی آگاہی کی کمی اور حکومتی سطح پر مسلسل توجہ کی کمی صورتحال کو مزید بگاڑ رہی ہے۔
حکومت نے پچھلے چند سالوں میں ہیٹ ویو کی پیشگی اطلاع دینے، واٹر کیمپس قائم کرنے اور طبی سہولیات فراہم کرنے کے کچھ اقدامات کیے ہیں، لیکن یہ سب عارضی اقدامات تب تک مؤثر نہیں ہو سکتے جب تک عوامی سطح پر شعور بیدار نہ کیا جائے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ہیٹ اسٹروک صرف ایک موسمی مسئلہ نہیں ہے، بلکہ یہ ایک سماجی، معاشی اور انتظامی چیلنج بھی ہے۔ مزدور طبقہ جو روزانہ کی بنیاد پر کام کرتا ہے، وہ شدید گرمی میں بھی گھر کا چولہا جلانے کے لیے مزدوری کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ کیا ہمارا فرض نہیں کہ ہم ان کے لیے سایہ دار جگہ اور پینے کے پانی کا انتظام کریں -اگر گرمی کے موسم میں سردرد، چکر، اور متلی محسوس ہو اور اس کے بعد بخار ہو جائے، پیاس اور بے چینی بڑھ جائے تو فوراً ڈاکٹر سے رابطہ کریں۔ ہیٹ اسٹروک کے مریض کی ایک علامت یہ ہے کہ وہ تیز تیز سانس لیتا ہے۔ دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے، جلد کا رنگ سرخ ہونے لگتا ہے۔ جسم سے پسینے کا اخراج رک جاتا ہے۔ جب پسینے کا آنا بند ہو جاتا ہے تو بیماری شدت اختیار کر لیتی ہے اور جسم کا درجہ حرارت کم نہیں ہوتا۔ یہ ایک خطرناک صورت حال ہے جس سے مریض بے ہوش ہو سکتا ہے۔ہیٹ اسٹروک کے اثرات سے بچنے کے لیے پنکھے، کولر، اور اے سی کے ساتھ گھر کے اندر رہیں۔ اگر یہ چیزیں گھر میں موجود نہیں ہیں تو پردے لگائیں اور شیڈز ضرور بنائیں ۔ اس طرح آپ گرمی کی لہر کے خطرات سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔
غیر ضروری سفر سے پرہیز کریں۔ دھوپ میں سر کو ڈھانپ کر رکھیں اور اس حالت میں وقتاً فوقتاً پانی پیتے رہیں تاکہ جسم ہائیڈریٹ رہے۔ اس موسم میں روزانہ کم از کم 8-10 گلاس پانی پینے کی کوشش کریں۔ اپنی خوراک میں وافر مقدار میں پھل اور سبزیاں شامل کریں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہیٹ اسٹروک کو ایک قومی مسئلہ سمجھا جائے۔
میڈیا کو چاہیے کہ مسلسل آگاہی مہم چلائے، تعلیمی ادارے بچوں کو موسم کی شدت سے بچاؤ کے اسباق دیں، اور بلدیاتی ادارے درخت لگانے اور پانی کے کیمپس جیسے اقدامات کو مستقل بنیادوں پر جاری رکھیں۔
صرف باتوں سے نہیں، عملی اقدامات سے ہی ہم اپنے معاشرے کو محفوظ بنا سکتے ہیں۔ یہ وقت ہے کہ ہم موسمی تبدیلیوں کا سنجیدگی سے ادراک کریں اور آنے والی نسلوں کے لیے ایک بہتر اور محفوظ ماحول تشکیل دیں۔
1 comment
1 Comment
Qamar
May 26, 2025, 1:13 pmexcellent
REPLY