مدیراعلی: ندیم اجمل عدیم


صنفی بنیاد پر تشدد کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافہ ‘ایس ایس ڈی او نے رپورٹ جاری کردی

صنفی بنیاد پر تشدد کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافہ ‘ایس ایس ڈی او نے رپورٹ جاری کردی

  Author Editor Hum Daise View all posts

 

رپورٹ: شیریں کریم
سسٹین ایبل سوشل ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن (SSDO) نے سال 2024 کی پنجاب بھر میں صنفی بنیاد پر تشدد کے حوالے سے ضلعی تجزیہ رپورٹ جاری کر دی ہے، رپورٹ میں جنوری سے لے کر دسمبر 2024 تک پنجاب بھر کے اضلاع میں خواتین پر ہونے والے تشدد میں اضافے اور نظامِ انصاف کی ناکامی کے حوالے سے بتایا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق تشدد کے ہزاروں واقعات تو رپورٹ ہوئے مگر سزا کی شرح نہ ہونے کے برابر رہی ۔ ایس ایس ڈی او (SSDO) کی یہ رپورٹ معلوماتِ حق تک رسائی کے قانون رائیٹ ٹو انفارمیشن (RTI) کو استعمال کر کے ڈیٹا اکٹھا کرنے کے بعد مرتب کی گئی ہے اور پھر پنجاب کے اضلاع میں آبادی کے تناسب سے جرائم کی شرح کے فارمولے کے تحت تجزیہ کیا گیا۔ رپورٹ میں گزشتہ سال 2024 میں ہونے والے زیادتی، غیرت کے نام پر قتل، اغواء اور گھریلو تشدد جیسے چار بڑے جرائم کی ضلعی سطح پر تفصیل فراہم کی گئی ہے۔ ان جرائم میں شہری اور دیہی دونوں علاقوں میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا،جبکہ سزاؤں کی شرح انتہائی مایوس کن رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق جنسی زیادتی کے سب سے زیادہ کیسز لاہور میں 532 رپورٹ ہوئے، جس کے بعد فیصل آباد میں 340 اور قصور میں 271 رپورٹ ہوئے ، تاہم ان میں سزا کی شرح نہایت کم رہی ، لاہور میں صرف 2 اور قصور میں 6 افراد کو سزا دی گئی دیگر اضلاع میں ایک ملزم کو بھی سزا نہیں ہوئی۔ جب آبادی کے تناسب سے دیکھا گیا تو قصور میں 25.5 فیصد فی لاکھ اور پاکپتن میں 25 فیصد فی لاکھ تھا۔ یہ کہ نسبتاً چھوٹے اضلاع میں زیادتی کے واقعات کی شرح انتہائی تشویشناک نکلی، جو دیہی علاقوں میں خواتین کے لیے بڑھتے خطرات کی نشاندہی کرتی ہے۔غیرت کے نام پر قتل کے زیادہ تر واقعات فیصل آباد میں 31 رپورٹ ہوئے، جبکہ راجن پور اور سرگودھا میں یہ تعداد 15، 15 رہی۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ ان واقعات میں کسی ایک بھی ملزم کو سزا نہیں دی گئی۔ فی لاکھ آبادی کے حساب سے راجن پور 2.9 اور خوشاب 2.5 فیصد سرفہرست رہے، جو ظاہر کرتا ہے کہ بعض ثقافتی رجحانات آج بھی خواتین کی زندگیوں کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔اغواء وہ جرم ہے جو رپورٹ ہونے والے تمام جرائم میں سرفہرست رہا۔ صرف لاہور میں 4,510 کیسز درج کیے گئے، جن میں صرف 5 مجرموں کو سزا دی گئی۔ فیصل آباد میں 1,610 ، قصور میں 1,230 ، شیخوپورہ میں 1,111 اور ملتان میں 970 کیسز رپورٹ ہوئے اور کسی بھی ملزم کو سزا نہیں دی گئی۔ جرائم کی شرح کے اعتبار سے لاہور 128.2 فیصد فی لاکھ قصور 115.8 فیصد فی لاکھ اور شیخوپورہ 103.6 فیصد کے حساب سے آگے ہیں،جبکہ خانیوال میں 84.9 فیصد اور اوکاڑہ میں 77 فیصد جیسے نسبتاً کم شہری اضلاع بھی نمایاں ہیں۔گھریلو تشدد کے کیسز میں گوجرانوالہ 561 کیسز کے حساب سے سرفہرست رہا، اس کے بعد ساہیوال 68 اور لاہور میں 56 کیسز رپورٹ ہوئے۔ تاہم ان مقدمات میں بھی کسی کو سزا نہیں دی گئی۔ فی لاکھ آبادی کے لحاظ سے گوجرانوالہ میں 34.8 فیصد اور چنیوٹ میں 11 فیصد کے حساب سے گھریلو تشدد کی شرح سب سے زیادہ رہی جس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ مسئلہ شہری و دیہی دونوں علاقوں میں شدید نوعیت اختیار کر چکا ہے۔سسٹین ایبل سوشل ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن (SSDO) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر سید کوثر عباس کا کہنا ہے کہ پنجاب پولیس نے کافی حد تک رپورٹنگ بہتر کی ہے مگر عدالتوں کی جانب سے سزاؤں کی تعداد انتہائی کم ہے، انھوں نے کہا کہ یہ صرف وہ کیسز ہیں جو پنجاب پولیس نے رپورٹ کئے ہیں جبکہ کئی کیسز ایسے ہیں جو پولیس کے پاس رپورٹ نہیں ہوئے یا متاثرین کو رپورٹ نہیں کرنے دیے گئے، ایس ایس ڈی او کی اس رپورٹ کا مقصد عدالتی اصلاحات اور متعلقہ اداروں کی خواتین سے متعلق جرائم کی جانب توجہ دلانا ہے۔ پنجاب حکومت نے وومن سیفٹی ایپ، ورچوئل پولیس سٹیشن اور دیگر ایسے اقدامات کیے ہیں جو قابل تحسین ہیں جو نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا میں پذیرائی حاصل کر رہا ہے مگر عوام کو اس سے متعلق آگاہی فراہم کرنا بھی انتہائی ضروری ہے تا کہ خواتین ایسے کیسز کو وومن سیفٹی ایپ اور ورچوئل پولیس سٹیشن کے ذریعے بروقت رپورٹ کر سکیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ایس ایس ڈی او کی یہ رپورٹ ایک وارننگ ہے جس میں فوری اصلاحات اور مؤثر قانونی عملدرآمد کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ایس ایس ڈی او کے سینئر ڈائریکٹر پروگرامز شاہد خان جتوئی کا اس موقع پر کہنا تھا کہ خواتین کے اغواء کے پیچھے اکثر ایسے جرائم چھپے ہوتے ہیں جن میں انسانی سوداگری ، جبری تبدیلی مذہب، تاوان، زیادتی اور قتل شامل ہوتے ہیں، جو فوری ریاستی مداخلت کے متقاضی ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ رپورٹ میں دی گئی رنگین نقشہ جاتی تفصیلات اور ضلعی سطح کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ کئی چھوٹے اضلاع بڑے شہروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ متاثر ہیں

Author

Posts Carousel

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked with *

Latest Posts

Top Authors

Most Commented

Featured Videos

Author