مدیراعلی: ندیم اجمل عدیم


قومی کمیشن برائے وقار نسواں کا شادی کی عمر 18 سال مقرر کرنے کے لئے ملک گیر مہم شروع کرنے کا اعلان

قومی کمیشن برائے وقار نسواں کا شادی کی عمر 18 سال مقرر کرنے کے لئے ملک گیر مہم شروع کرنے کا اعلان

  Author Editor Hum Daise View all posts

 

رپورٹ: شیریں کریم
کم عمری کی شادی کے بڑھتے ہوئے رجحان اور اس کے سنگین نتائج کے پیش نظر، خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیموں نے ملک بھر میں ایک جامع مہم کا آغاز کر دیا ہے۔ قومی کمیشن برائے وقار نسواں کی چیئرپرسن ام لیلی اظہر نے پریس کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ سندھ کے بعد اسلام آباد میں بچے بچیوں کی شادی کے لیے کم از کم عمر 18سال مختص کیے جانا خوش آئند ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ ملک بھر میں شادی کی کم از کم عمر 18 سال مختص کی جاے اس قانون کا قیام اب تک نہ ہونے کا نمایاں سبب سٹیک ہولڈرز کا متحرک اور یکجا نہ ہونے اور ملک بھر میں پدر شاہی نظام کی موجودگی ہے۔ ہمیں اپنی آئندہ نسل کے مستقبل کے بارے میں انکی تعلیم، صحت اور روشن کل کے لیے سوچنا اور اقدامات کرنا ہوں گے۔ ہمیں اپنے بچوں بالخصوص بچیوں کے استحصال کو روکنا ہو گا۔ بات صرف شادی کی نہیں یہ آئندہ نسلوں کی پرورش، مستقبل اور پاکستان کے معاشی اور معاشرتی استحکام پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ کم عمری کی شادیاں بچوں بالخصوص بچیوں پر ذہنی اور جسمانی تشددد کا سبب بنتی ہے۔ انہوں نے اس امر پر بھی زور دیا کہ جب ایک صوبے میں قانون نافذ ہو اور دوسرے میں نہ ہو، تو بعض عناصر بچیوں کو ایک صوبے سے دوسرے صوبے منتقل کر کے استحصال کرتے ہیں، جو کہ سراسر ظلم اور تشدد کے زمرے میں آتا ہے۔ فہمیدہ اقبال، معروف جینڈر ایکسپرٹ نے اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں 18 فیصد لڑکیاں 18 سال سے پہلے شادی کے بندھن میں باندھ دی جاتی ہیں، جبکہ 54 فیصد کم عمر لڑکیاں 18 سال سے پہلے ہی حاملہ ہو جاتی ہیں، جو ان کی اور نومولود کی جان کے لیے خطرہ بننے کی نمایاں وجہ ثابت ہوتی ہے۔ خواتین کے حوالے سے امور کی ماہر ثمن احسن نے کہا کہ سعودی عرب سمیت متعدد مسلمان ممالک میں شادی کی کم از کم عمر 18 سال ہی ہے تو پاکستان میں ایسا ہونے میں رکاوٹیں کیوں کر حائل کی جاتی ہیں، اٹھارہ سال سے کم عمر کو گاڑی چلانے ووٹ دینے وغیرہ کا حق نہیں دیا جاتا تو پھر خاندان اور نسل کو آگے کے کر جانے جیسی بھاری ذمہداری کیسے سونپی جا سکتی ہے۔ ہمیں اس مہم کے ذریعے قانون کی تبدیلی نہیں، بلکہ ایک سماجی بیداری کی تحریک قائم کرنی ہے۔ خواتین اور بچیوں کے بہتر مستقبل کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز، بشمول مذہبی رہنما، قانون ساز، اور سول سوسائٹی کو ایک صفحے پر آنا ہوگا۔

Author

Posts Carousel

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked with *

Latest Posts

Top Authors

Most Commented

Featured Videos

Author