Author Editor Hum Daise View all posts
طارق اسماعیل
راجہ چندر گپت موریا تھا اپنی رعایا میں انصاف ،پریم ،شانتی اور پنی بُدھی مانی کی وجہ سے بہت مشہور تھا۔ راجہ چندر گپتٍٍٍ کے راج میں سبھی انسان اور چرند پرند شانتی اور امن سے خوش و خرم زندگی گزار رہے تھے۔ راجہ کے راج میں سب سے زیادہ اہمیت چندر بھاگی جنگل کو تھی راوی و چناب دریا کے سنگم میں واقع اس جنگل کو اس کی خوبصورتی ،وسیع تر وسائل اور کشادگی کی وجہ سے بہت اہمیت کا حامل تھا۔ چندربھاگی کا جنگل بہت زیادہ سرسبز تھا جس میں ہر طرح کے وافر وسائل موجود تھے۔جنگل میں جانوروں کی بھانت بھانت کی نسلیں آباد تھیں۔ چندربھاگی جنگل میں پانی ،پھلدار درختوں کی ون پَونی اقسام موجود تھیں۔ دنیا میں کوئی بھی ایسی چیز نہیں تھی جس کی کمی ہو اس جنگل میں۔ چندربھاگی کے جنگل میں میٹھے اورشفاف پانی نہریں ،انگور ،آم ،شہتوت ،آڑو ، لیچی ،جامن کے ساتھ وافر مقدار میں چارہ نیز قدرت کا ہر رنگ موجود تھا تھا۔ اس جنگل کے وافر وسائل کی دھمیں اڑوس پڑوس کی سبھی ریاستوں میں تھیں۔ چندربھاگی کے حسن سے متاثر دوردرراز کے کئی جانور للچائی نظروں سے اس کے وسائل نوچنے کے لئے اس کا رخ کرتے۔چندربھاگی جنگل میں بسنے والے جانوروں میں سے کوئی بھی یہاں کا مقامی نہیں تھا اور جنگل میں آباد تمام جانور کہیں نہ کہیں سے یہاں اپنی بے روزگاری مٹانے کی خاطر آئے تھے۔ ہر جنگل کی طرح چندر بھاگی جنگل کا بھی ایک قانون تھا جس کا تمام جانوروں کو آدر کرنا پڑتا تھا۔قانون کے مطابق جو بھی جانور عمر کا یک مخصوص حصہ پوراکرتا وہ جنگل میں غیر بن جاتا اور اسے جنگل کو چھوڑ اپنے آبائی علاقے کو لوٹنا پڑتا۔ عمر کا حصہ پورا کرکے جانے والوں کو اجازت تھی کہ وہ جنگل میں وہ اپنے ساتھی جانوروں سے ملنے کو آتا جاتا رہے مگر جنگل کے انتظامی معاملات میں دخل اندازی کی اجازت بالکل بھی نہ تھی۔ جنگل میں گدھ ،گیدڑ ،کتے ،کتیاں ،کھوتے ،کھوتیاں ،توڈے ،ڈاچی ،لومڑ ،لومڑیاں،باندر،باندریاں ،تتلیاں ،بھنورے ،ہرن ،ہرنیاں ،کوئل ،چڑیاں ،کوے ،کبوتر ،کبوتریاں ،بکرے ،بکریاں ،لیلے ،کچھ بدذات چھیلے ،بگھیلے ،گیلہڑ ،سانپ ،نائلو ،گوہیرے ،سیہہ سمیت ہرطرح کے اچھے برے جانور جانوروں موجود تھے۔بھرپور وسائل کی بدولت بھوکا پیٹ بھرنے کے لئے دوسرے علاقوں کے جانور بھی اس جنگل میں آجاتے۔ یہ چندبھاگی کافانا فلورا ہی تھا جو باہر سے آنے والے جانوروں کو بھی اپنے دامن میں سمیٹ لیتا۔ ایک مرتبہ خطہ پوٹھوہار سے بھوک اور اقتدار کی ہوس میں باؤلا کتا بھی اس جنگل میں اپنا بھوکا اوجھ بھرنے کےلئے وہاں کی ریاست کے بادشاہ کی سفارش پر چندربھاگی جنگل میں داروغہ بن کر آن وارِد ہوا۔پوٹھوہار سے آنے والا یہ جرمن شیفرڈ قسم کا کتا جہاں سے آیا وہاں چھوٹی چھوٹی کچھاروں میں رہتا تھا۔ وہاں کے طاقتور جانوروں کے بچوں کی چوکیداری اور ٹی۔سی کرتا تھا۔جرمن شیفرڈ چندر بھاگی جیسے انتہائی زرخیز اور خوبصورت جنگل میں آیا تو پہلے تو اسے اتنے وسائل دیکھ کر یقین ہی نہ آیا کہ وہ کیسے انہیں کھاسکے گا کیونکہ اس نے اپنے بچپن میں بہت بھوک دیکھی تھی۔ جنگل میں آتے ہی جرمن شیفرڈ کی دوستی ایک گدھ سے ہوئی اور گدھ نے اپنے مردار کھانے کی عادت کے مطابق جرمن شیفرڈ کو بھی مردار کھانے کی راہ پر لگایا اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جرمن شیفرڈ کتے کو مردار میں ایسا مزہ آیا کہ وہ اپنی بھوک کی زیادتی بھی بھول گیا۔ اسی دوران اس جنگل سے بہت عرصہ پہلے قانون کے مطابق اپنی مخصوص عمر پوری کرنے کے بعد جنگل سے نکل جانے والے ایک گیلہڑ کی ملاقات بھی گدھ کے توسط سے جرمن شیفرڈ سے ہوئی۔ گیلہڑ جنگل کے قانون کے مطابق اپنی عمر پوری کرکے جنگل سے نکل کر جنگل کے قریب ہی موجود شالیمار نامی انسانی علاقے میں اپنا مسکن بنا لیا۔ گیلہڑ نکل جانے کے باوجود جنگل میں آتا جاتا رہتا اور جنگل کے انتظامی امور میں اپنی مداخلت کرتا۔ جب بھی چندربھاگی جنگل میں باہر سے کوئی جانور آتا تو گیلہڑ اپنے مکروہ اور حرام خوری کی عادت کے مطابق اپنے تعلقات قائم کرنے کے لئے آجاتا۔جنگل کے وسائل نوچتے نوچتے شیفرڈ بھی پھول کر کلہوٹی ہوگیا۔ بدشکلے گیلہڑ نے بھی شیفرڈ کو اپنی حرکتوں کے کرتب دکھا کر اپنا گرویدہ کرلیا اور جنگل میں موجود اپنے چیلے اور چیلیوں سے ملاقاتیں بھی کروائیں۔ اسی تسلسل میں جنگل میں جرمن شیفرڈ ،ڈاچی اور ایک باندری میں دوستی اور عشق کے چرچے ہونے لگے۔ باندری بچپن میں انسانوں کے علاقے میں تماشے بھی دکھاتی رہی تھی۔ باندری لوسی طبیعت کی تھی تو اس بناء پر اس کا مالک اسے جنگل میں واپس چھوڑ گیا۔ باہر سے آئے جرمن شیفرڈ کو باندری نے بتایا کہ وہ بھی کچھ عرسہ کے لئے سرسوتی دریا کے دامن میں واقع ایک جنگل میں چار سال گزار آئی ہے۔ باندری نے جس جنگل میں چار سال گزارے وہاں بھی سب جانوروں کے لئے مسائل پیدا کر آئی تھی اور سب نے اس کے جنگل سے نکل جانے پر شکرادا کیا۔ جرمن شیفرڈ چونکہ پہلے کچھاروں میں رہتا تھا اور چوکیداری کے بعد ڈربوں میں بند کردیا جاتا تھا تو اس نے پہلی بار باندری کو بہت قریب سے دیکھا تو اس کی آنکھوں میں پہلا پہلا پیار جاگا اور محبت کی چمک نمایاں ہوئی بالکل اسی طرح جیسے جنگل سے نکل جانے والے گیلہڑ کی آنکھوں میں نیلی نیلی آنکھوں والی ایک نیل گائے کے لئے جاگا کرتا تھا۔ باندری نے جرمن شیفرڈ کی محبت کو بھانپتے ہوئے ٹوٹے دل سے کہاکہ چونکہ جنگل کے قانون کے مطابق پرائی ہونے جارہی ہوں تو اس لیے میں تمہاری دوستی عرب کے صحراؤں سے آئی ایک ڈاچی سے کراتی ہوں۔ ڈاچی بہت خوبصورت اور دلکش تھی ساتھ ہی اسے ایک صحت مند توڈے کی تلاش تھی جو اس کے حسن اور دلکشی کو اپنے ہونٹوں کی تاپ دے کر مزید نکھار سکے۔ توڈا تو اس کا اپنا بھی تھا لیکن وہ اس کی خواہشات پوری کرنے سے قدرے معزول تھا۔ ساون ہو یا چیتر ہو ،سندر موسم ہو یا کوئی جنگل کا خاص تہوار جب سب جانور اپنے ساتھیوں کے ساتھ چتریچے جارہے ہوتے تھے یا ساونی منانے میں مگن ہوتے ڈاچی ہمیشہ اداس نظروں سے انہیں دیکھا کرتی اور چھپ چھپ کے اپنے اپنے آنسو بھی بہاتی۔ ڈاچی باندری کو بہت پیاری تھی تو باندری نے شیفرڈ سے ڈاچی کی سفارش کی کہ اسے بھی جنگل میں کوئی نمایاں مقام دیا جائے تاکہ اس کا سودا بھی بکتا رہے۔ ڈاچی کی اداسی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس کا توڈا بظاہر تو جنگل میں کودتا اچھلتا رہتا لیکن جب بھی مخصوص موسم میں ڈاچی کے قریب آتا تو اس کے قدم لڑکھڑانے لگتے اور ݙاچی کو چھوتے ہی اس کی سرکار بغیر کوئی کارکردگی دکھائے گِر جاتی۔ ڈاچی بے چاری اسے ایسی مونجھ بھری اور للچائی نظروں سے دیکھتی جیسے کہہ رہی ہو توڈے سرتاج ،میرے قریب آنے سے پہلے ہی آپ کی سرکار گِر کیوں جاتی ہے۔ باندری سے ڈاچی کا یہ دکھ دیکھا نہ جاتا۔ ڈاچی کی جرمن شیفرڈ ست دوستی کرانے کے بعد باندری ،ڈاچی اور جرمن شیفرڈ ،دن بھر جنگل میں مستیاں کرتے ۔ڈاچی کبھی رات میں شیفرڈ کی بڑی کچھار میں چلی جاتی کبھی دن میں اس کے بے حیائی کے اڈے کا رخ کرتی اور اسے وہاں جاکر مخصوص مشروب پلانے کے ساتھ امرالقیس کی شاعری اور تربوز کھانے کے فوائد بتاتے ہوئے اسے اپنی قاتلانہ اداؤں سے خوب لبھاتی۔ دن بھر ساتھ پھرںے پر تینوں کی دوستی بہت مضبوط ہوتی رہی۔ جرمن شیفرڈ ڈاچی کے اوپر چڑھ کر جنگل کی سیر کرتا جنگل سے ون پونے انگور توڑتا تو سب سے پہلے ان کا رس نکال کر باندری کے منہ میں ڈالتا۔ باندری کو انگوروں کا رس بہت پسند تھا۔ کبھی یہ خربوزے کے کھیت جاگھستے جہاں سے خوب شکم سیر ہوکر خربوزے کھاتے۔ ڈاچی کو ہشا کر جرمن شیفرڈ خود اپنے ہاتھوں سے خربوزے کھلاتا۔ دوستی کے اس بڑھتے سلسلے کے دوران باندری کو خارش کی بیماری ہوناشروع ہوگئی۔اس جنگل میں ہر اس جانور کو خارش کی بیماری اسی دوران ہی شروع ہوتی جب جنگل کے قانون کے مطابق ان کے جنگل چھوڑجانے کے دن قریب آتے جارہے ہوتے۔ جوں جوں باندری کی خارش بڑھتی جارہی تھی تو ڈاچی بھی چوکڑیاں مارنے لگی تھی کیونکہ جرمن شیفرڈ کا ساتھ ہونے کے ساتھ نے اس کے اعتماد کو مزید بڑھاوا دیا۔ باندری نے جرمن شیفرڈ سے ڈاچی کے لئے سفارش کی کہ اسے جنگل کے ایک خاص اور خوشحال حصے میں رہنے دیاجائے بلکہ وہ حصہ ہی اس کی حکمرانی میں دے دیا جائے۔ جرمن شیفرڈ جو پہلے سے ہی ڈاچی کے سندرتا اور باندری کی چکنی چپڑی باتوں کاعادی ہوچکا تھا کچھ نہ کہہ سکا اور ڈاچی کی من پسند جگہ اسے دے دی حالانکہ وہ جنگل کی ایک پرامن اور سب سے پروسائل جگہ تھی۔ ڈاچی جونہی نئی جگہ پہنچی اور وہاں کے سرسبز کھیتوں سے چرنا شروع کیا تو کچھ ہی دنوں بعد ڈاچی کے تھن دودھ سے بھرنے لگے۔ اس کی کوہان کے ساتھ اس کے جسم میں بھی تبدیلی آنے لگی۔ دودھ سے بھرے تھنوں کو محسوس کرکے ڈاچی اپنے توڈے کی گرتی سرکار کو بھی بھول گئی کیونکہ ڈاچی کے نئی جگہ آتے ہی کھوتے ،خچر ،توڈوں اور چھیلوں سے تعلقات بننا شروع ہوگئے تھے۔ یہاں پہلے سے موجود ایک کھوتا ہڈحرام بن چکاتھا۔ اس کی کمر میں درد رہنے لگا تھا اور وہ کسی بھی قسم کا کام کرنے کے قابل نہیں تھا تو وہ اپنی کچھار میں سارا دن سویا رہتا۔ ڈاچی کی آمد کے ساتھ ہی ہڈحرام کھوتے کو ڈاچی کا دودھ پلایا گیا تو اس کی کمر کا درد ٹھیک ہوگیا۔ڈاچی کے نئی جگہ آنے پر جنگل کے تمام موذی اور مردار جانوروں نے جنگل کے اس سرسبز حصے میں آنا شروع کردیا جن کے پہلے یہاں آنے پر پابندی عائد تھی۔ ایک موذی چھیلا بھی ڈاچی کے دودھ سے بھرے تھن دیکھ کر ہوشیاری پکڑنے لگا۔ ہڈ حرام کھوتا اور لوسی چھیلا مل کر کئی سال پہلے یہاں اڑنے والی تتلیوں کو تنگ کر چکے تھے۔ جنگل کے اس پرامن اور سرسبز حصے پر تین سال دو ماہ ایک جرنیل مزاج عقب کی حکومت رہی جس نے قانون کی عملداری کو یقینی بنایا تو ہڈحرام کھوتا اور چھیلا اپنی بدخصلتی نہ دکھا سکے اوراس دوران ان کی دم پر عقابی جرنیل کا مسلسل پاوں رہا اس طرح ان کو نتھ ڈلی رہی۔ ہڈحرام کھوتا اور چھیلا ڈاچی کے آنے پر اپنی اصل اوقات اور خصلت پر آگئے۔ڈاچی کو یہاں آنے والے کھوتے ،خچر ،چھیلے ،توڈے بہت پیارے لگنے لگے۔ اب صورتحال بدل رہی تھی۔ باندری کی خارش بڑھنے کے ساتھ اس کے دن پورے ہونے لگے تھے۔ڈاچی کے تھن پہلے سے خوبصورت کیاہوئے کہ اس کے تھنوں میں دودھ بھی بڑھ گیاہے۔ ڈاچی میں گھوڑے ،خچروں اور باقی موذی جانوروں کی بڑھتی دلچسپی کے پیش نظر جرمن شیفرڈ نے خبردار کیا کہ ڈاچی کا دودھ وہ خود ہی پیئے گا۔جنگل میں جانورروں کے مختلف گروپ بھی موجود تھے۔ ان کی اکثریت ڈاچی پر سوار ہونا چاہتی تھی۔ ۔جنگل میں جس کی بھی کمر میں درد ہوتا وہ اپنی کمر درد کو ٹھیک کرنے کےلیے ڈاچی کے دودھ کی طرف لپکنے لگتا۔ ڈاچی تھی کہ وہ جرمن شیفرڈ کے علاوہ تھنوں کو منہ بھی نہ لگانے دیتی۔ جنگل میں یہ سب جانتے تھے کہ عرب کے علاقے اور ریگستانوں میں ڈاچی کا دودھ بہت پسند کیاجاتا ہے۔ اس کے دودھ کا ذائقہ نمکین ہوتا ہے اور اس کے گوشت میں یورک ایسڈ نہیں ہوتا۔ جرمن شیفرڈ نے اس صرتحال کے پیش نظر بھی یہ اعلان کیا کہ ڈاچی اب صرف اسی کی رہے گی لہذا اس کی جانب کوئی بھی للچائی نظروں سے نہ دیکھے۔محبتوں کو پروان چڑھاتے اپنے عشق کی داستان لکھتے ہوئے باندری،ڈاچی اور باہر سے آیا جرمن شیفرڈ تیزی سے چندر بھاگی جنگل کے ہرے بھرے کھیت اجاڑنے لگے۔ جرمن شیفرڈ نے تو وسائل نوچنے کے ساتھ ڈاچی کے ساتھ وقت گزارتے نکل جاتا۔ اس سے پہلے کہ وسائل سے بھر پور جنگل اور اس کے وسائل اجڑ جاتے ،جنگل میں موجود معجزاتی ڈاچی کی جوانی اور سندرتا کو چوس لیا جاتا۔ڈاچی کے تھنوں میں نہ دودھ باقی رہتا اور نہ اس کی چال ڈھال کسی کام آسکتی۔ اس سب سے پہلے کہ جنگل اجڑ جاتا چندر گپت موریا کی ریاست میں چندربھاگی جنگل کے معاملات اور جرمن شیفرڈ کے عشق کی کتھا ہونے لگی۔ ایک کتھاکار نے معاملات کو سمجھنے اور ان کی کتھا کرنے کےلیے جنگل کا رخ کیا۔ کتھاکار نے جنگل میں جاکر معاملات کو بھانپ لیا اور سوچنے لگا کہ جنگل واسیوں کو چار سال بعد معلوم گا کہ ان کے ساتھ ہوا کیا ہے۔ ہوسکتا ہے تب تک جنگل کہانی بتانے والے بھی موجود نہ ہوں لیکن جنگل میں رہنے والے جانوروں کی اگلی نسل نے تو آناہے۔ اگر خود ہی ڈاچی،شیفرڈ اور باندری کے ہاتھوں اجڑتے جنگل کا تماشا دیکھنے اور ساتھ دینے والوں کی اگلی نسل خود تماشا بنی ہوگی تو پھر کیا بنے گا۔ کتھا کار نے جنگل واسیوں کو اس سب سے خبردار کیا اور جگانے کی کوشش کی۔ کتھاکار کا مؤقف تھا کہ جنگل میں سبھی ڈاچی ،توڈے ،خچر ،سور اور باقی ماندہ اچھے ،نیک اور موذی جانور آباد تو رہیں مگر اپنی اپنی حدود میں رہیں اور جنگل کے قانون کا احترام کریں
Leave a Comment
Your email address will not be published. Required fields are marked with *