Author Editor Hum Daise View all posts
سمیر اجمل
مسیحوں کی معروف مذہبی شخصیت کارڈینل جوزف کوٹس کو تمغہ امتیاز سے نواز ا گیا ہے۔ کارڈینل جوزف کوٹس کو تمغہ امتیاز 23مارچ کو منعقدہ ایک تقریب میں دیا گیاہے۔23مارچ کو یوم پاکستان کے طور پر منایا جاتاہے اور ہر سال اس دن وطن عز یز کے لئے خدمات سرانجام دینے والی شخصیات کو مختلف ایوارڈ دئیے جاتے ہیں‘تمغہ امتیاز پاکستان کا سب سے بڑا سول ایوارڈ ہے جو پاکستان میں گنے چنے افراد کو ملتا ہے۔کارڈینل جوزف کوٹس کراچی ڈایوسیس کے بشپ ہیں اور عرصہ دراز سے پاکستان کے مختلف شہروں میں بطور پاسبان(مذہبی رہنما) فرائض سرانجام د ے رہے ہیں۔بشپ جوزف کوٹس کو تمغہ امتیاز کا ملنا خوش آئند ہے‘ روشن خیال حلقوں اور مسیحوں کی جانب سے حکومت کے اس امر کو سراہا جارہا ہے کہا جارہا ہے کہ یہ تمغہ مذہبی اقلیتوں خاص کر مسیحوں کی خدمات اور وجود کو تسلیم کئے جانے کا ثبوت ہے اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ اقلیتوں نے قیام پاکستان سے لیکر استحکام پاکستان تک گراں قدر خدمات سرانجام دی ہیں اور اب بھی دے رہے ہیں اور کارڈینل جوزف کوٹس کو تمغہ امتیاز ملنا ان خدمات کو تسلیم کئے جانے کے مترادف ہے کارڈینل جوزف کوٹس کو ملنے والے تمغہ امتیاز کے حوالے سے بتایا جارہا ہے کہ یہ انہیں ان کی مذہبی و سماجی خدمات کے پیش نظر دیا گیا ہے مگر ایک خاص چرچ یا جماعت کے مذہبی سربراہ کو تمغہ امتیاز کا ملنا کئی سوالات کو بھی جنم دیتا ہے‘کاتھولک چرچ دنیا بھر میں مسیحوں کا سب سے بڑا اور منظم چرچ ہے‘ پاکستا ن میں بھی کاتھولک مسیحوں کی تعداد زیادہ ہے‘کاتھولک چرچ کے زیر انتظام بہت سے تعلیمی ادارے‘ہسپتال اور رفاعی مراکز قائم کر رہے ہیں مگر یہ سب ادارے ایک سسٹم کے تحت ایک تنظیم کے زیر انتظام کام کرتے ہیں اگر ان کی خدمات کو کسی ایک شخص سے منسوب کیا جائے (جیسا کہ کارڈنیل جوزف کوٹس کے تمغہ کے حوالے سے تا ثر دیا جارہا ہے) تو یہ درست نہ ہوگا کیونکہ ہر ادارہ اپنے سربراہ اور اراکین کے ساتھ اپنے مینڈیٹ کے مطابق کام کر رہا ہے۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قیام پاکستان کے وقت کاتھولک مشنری اداروں (سکولوں‘ ہسپتالوں) کے ذریعے جو خدمات سرانجام دی گئی ہیں ان کی مثال نہیں ملتی مگر وقت گزرنے کے ساتھ مسیحوں کی دیگر تنظیموں (چرچز) نے بھی ایسے ادارے(سکول‘ہسپتال‘رفاعی سنٹرز) قائم کئے ہیں جن کے ذریعے گراں قدر خدمات سرانجام دی گئی ہیں اس وجہ سے ماضی میں جہاں کاتھولک چرچ کو ہرمعاملے میں ترجیح دی جاتی تھی وہاں پر اب دیگر چرچز کو ترجیح دی جاتی ہے سرکاری سطح پر بھی اس قسم کے رویہ جات دیکھنے کوملتے ہیں اس معاملے کو سمجھنے کے لئے بہت سی مثالیں موجود ہیں لیکن اگر صرف نظر کرتے ہوئے سانحہ جڑانولہ کے تناظر میں ہونے والی سرکاری تقریبات کو دیکھ لیا جائے تو بات سمجھ آجائے گی جڑانولہ کی کرسچین کالونی میں زیادہ تعداد کاتھولک مسیحوں کی ہے۔سانحہ جڑانولہ کے متاثرین کی مدد کے لئے وزیر اعظم پاکستان (انوار الحق کاکڑ) جڑانوالہ آئے تو اس موقع پر کاتھولک مذہبی رہنماؤں (بشپس‘ فادر ز) کی موجودگی کے باوجود لاہور کے ایک چرچ کے پادری صاحب دعا کے لئے کہا گیا جبکہ ماضی بعید میں یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ کاتھولک چرچ کے علاوہ کسی اور کو مسیحوں کا نمائندہ تصور کیا جاسکے یہاں تک حکومتی ایوانوں اور پارلیمنٹ کا ممبران ہونا بھی کاتھولک چرچ کے نمائندگان کا حق سمجھا جاتا تھا جس کے نتیجے میں فادر ڈیرک اورفادر روفن جولیس جیسے لوگ اسمبلیوں میں پہنچتے رہے ہیں‘ 90کی دہائی تک بی بی سی‘ سی این این اور ڈی ڈبلیو جیسے بڑے ادارے بھی کاتھولک چرچ کے نمائندگان کو ہی مسیحوں کا سپوکس پرسن سمجھتے تھے بڑے سے بڑے ایشو پر بھی کاتھولک چرچ کی دو یا تین نمائندہ شخصیات کے بیان کو خبر کا حصہ بنایا جاتا تھا یہ ان سے رائے لی جاتی تھی‘ بعض حلقو ں کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ اقلیتی نمائندگان کے چناؤ کے لئے نامزدگی کا جو طریقہ کار رائج ہے یہ بھی کاتھولک چرچ کی ان نمائندہ شخصیات کے رائے عامہ ہموار کرنے کی وجہ سے ہے کیونکہ اس وقت کاتھولک چرچ کے نمائندگان کو ہی مسیحیوں کا ترجمان سمجھا جاتا تھا مگراب کچھ عرصہ سے یہ سلسلہ مفقودہے جس کی وجہ سے کاتھولک چرچ اپنی بالادستی کی جنگ لڑتے نظر آرہا ہے اس کے لئے اثر و رسوخ کی بنا پر حکومتی عہدے‘ ایوارڈ اور تمغہ جات حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جیسے ہی اقلیتوں کے حوالے سے کوئی کمشن بنتا ہے یا عہدہ کا اعلان ہوتا ہے کاتھولک چرچ کی کوشش ہوتی ہے کہ یہ عہدہ ان کے نمائندگان کو ملے‘ماضی میں قومی اقلیتی کمشن کے قیام کا اعلان ہوا تو لاہور کے بشپ سبسٹین شاء کو اس کا ممبر بنا دیا گیا جنہوں نے ایک دن بھی اس کمشن کے اجلاس میں شرکت نہیں کی تھی‘بعدازاں عوامی تنقید پر انہیں اس عہدہ سے مستعفی ہونا پڑتا ہے‘ ماضی قریب میں ہی حکومت کی جانب سے نیشنل کمشن آن دی سٹیٹس آف وویمن (این سی ایس ڈبلیو) میں اقلیتی نمائندگی کا اعلان کیا گیا تو کاتھولک چرچ کی جانب سے ایک سسٹر (نن) روشن مریم کو اس کا ممبر بنا دیا گیاہے ان معاملات کو دیکھتے ہوئے محسوس یہ ہوتا ہے کہ بشپ جوزف کوٹس کو ملے والا تمغہ بھی اس بالادستی کو قائم رکھنے کا شاخسانہ ہی ہے کیونکہ اگر خدمات کو دیکھا جائے تو مسیحوں میں ایسی درجنوں نہیں سینکڑوں شخصیات ہیں جو انفرادی طور ایسے کام کررہی ہیں جن کی خدمات دوسروں سے امتیازی ہیں اور تمغہ امتیاز کی حقدار ہیں ان میں شعبہ طب‘ شعبہ تعلیم‘شعر و ادب‘سپاہ گری اورفنون لطیفہ سمیت الغرض زندگی کے ہر شعبہ سے وابستہ شخصیات موجود ہیں ایسی صورت میں ایک ایسی شخصیت کو تمغہ امیتاز دیا جانا جن کے پاس خدمات کے لئے بڑا پلیٹ فارم‘وسائل‘ تنظیمی ڈھانچہ اور سرمایہ موجود ہے بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے
Leave a Comment
Your email address will not be published. Required fields are marked with *