مدیراعلی: ندیم اجمل عدیم


بیرونِ ملک ملازمت کرنے والوں کی خواتین کے ہراسانی کےواقعات

بیرونِ ملک ملازمت کرنے والوں کی خواتین کے ہراسانی کےواقعات

    Author Editor Hum Daise View all posts

 

 

انیسہ کنول
روزگار کی تلاش میں بہت سے شادی شدہ مرد دوسرے ملکوں (خاص طور پر خلیجی ممالک) کا رخ کرتے ہیں۔ ان کا مقصد بہتر مالی حالات، بچوں کا بہتر مستقبل، اور خاندان کی ضروریات پوری کرنا ہوتا ہے۔ تاہم، ان کی مستقل یا طویل غیرموجودگی بیوی اور بچوں کے لیے کئی قسم کے سماجی، جذباتی، اور نفسیاتی مسائل پیدا کرتی ہے-کئی ایسی خواتین جن کے شوہر بیرونِ ملک ہوتے ہیں۔ ان کی غیر موجودگی میں بعض لوفر اور بد نیت افراد خواتین کی مجبوری، تنہائی، یا معصومیت کا ناجائز فائدہ اٹھا کر انہیں جذباتی جال میں پھنساتے ہیں اور پھر انہیں بلیک میل کرتے ہیں طویل غیر موجودگی رشتوں میں خلیج پیدا کر دیتی ہےجب شوہر بیرونِ ملک ہوتا ہے تو عورت تنہائی، جذباتی کمزوری یا سماجی دباؤ کا شکار ہو سکتی ہےجب ایک شادی شدہ خاتون کسی سے مشورہ یا مدد کے لیے رجوع کرتی ہے-ایسے موقع پر ہی کوئی بد نیت شخص جھوٹے ہمدرد بن کر قریب آتا ہے ۔ تعلق قائم کر کے بعد میں اس کی ویڈیوز، تصاویر یا پیغامات کے ذریعے بلیک میل کرتا ہے فرضی نام (الف،ب،ج)بھی کچھ اس قسم کے حالات سے گزری اور پھنس گئی اس کا شوہر عرصہ دراز سے پردیس میں مقیم ہے جس کو گئے ہوئے تقریباً 10 سے 12 سال گزر گئے مگر وہ واپس نہیں آیا اس کے دو چھوٹے بیٹے بھی سمجھداری کو پہچ چکے مگر باپ کو آج تک سامنے نہیں دیکھا چند پیسے بھیج کر ذمہ داری س سے دامن جھاڑ لیتا ہے کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس نے وہاں شادی کی ہوئی ہے جو بھی ہے 12 سال کا طویل عرصہ کم نہیں ہوتا جوان بیوی 2 بچوں کے ساتھ چار دیواری میں زندگی کے دن کاٹ رہی تھی کہ اسے بھی ہمدردی اور سہارے کی ضرورت تھی ایسے ہی ایک بد قماش کے ہاتھ پھنس گئی جو کہ پہلے تو ہمدرد بنا پھر اپنا اصلی چہرہ دیکھانے لگا اس کو خاتون کی کمزوریوں کا علم ہوا تو اسے بلیک میل کرنا شروع کر دیا کہ اتنی رقم دے دو ورنہ تمھاری فیملی کو سب کچھ بتا دوں گا اور وہ اس خوف میں گھر میں بند اس کی بلیک میلنگ میں ہے کہ کہیں اس کے شوہر کو اس بد نیت انسان نے بتا دیا تو اس کا شوہر اسے گھر سے نکال دے گا خاتون چونکہ ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتی ہے جس کی وجہ سے وہ دونوں طرف پس رہی ہے اور شدید زہنی اذیت کا شکار رہتی ہے ہمت کی شدید کمی کے باعث وہ کوئی بھی قدم نہیں اٹھا پا رہی -بعض رشتہ دار بیوی بچوں کے معاملات میں غیر ضروری مداخلت کرتے ہیں، جو گھر کے ماحول کو متاثر کرتا ہے مجموعی طور پر خواتین کے بلیک میلنگ کیسز FIA سائبر کرائم ونگ کو سالانہ 80,000 سے 100,000 شکایات موصول ہوتی ہیں، جن میں سے 60-70% خواتین کی طرف سے ہوتی ہیں-ان میں سے تقریباً 40% کیسز میں بلیک میلنگ، تصاویر یا ویڈیوز کے غلط استعمال شامل ہوتے ہیں۔ ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن (DRF) اور مختلف NGOs کے مطابق، بلیک میلنگ کا شکار خواتین میں تقریباً 30-40% شادی شدہ ہوتی ہیں -اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر سال کم از کم 10,000 سے 15,000 شادی شدہ خواتین سائبر بلیک میلنگ، دھمکی یا بدنامی کا شکار ہوتی ہیں — اور یہ صرف رپورٹ ہونے والے کیسز ہیں-ماہرین کے مطابق صرف 10 سے 15% کیسز رپورٹ ہوتے ہیں۔ اس بنیاد پراگر 10,000 شادی شدہ خواتین کی رپورٹ درج ہوئی ہوتو اصل تعداد 70,000 سے زائد ہو سکتی ہے ۔ زیادہ متاثرہ طبقے میں شامل ہیں ایسی خواتین جن کے شوہر بیرون ملک رہتے ہیں اوردیہی علاقوں میں رہنے والی کم تعلیم یافتہ خواتین سوشل میڈیا استعمال کرنے والی مگر کم تحفظاتی شعور رکھنے والی ایسی خواتین جنہیں رشتہ داروں یا قریبی افراد سے خطرہ ہو اگرچہ بلیک میلنگ کا شکار ہونے والی شادی شدہ خواتین کی درست تعداد دستیاب نہیں، مگر تخمینے کے مطابق ہزاروں خواتین ہر سال اس جرم کا شکار ہوتی ہیں، اور یہ ایک خاموش، مگر خطرناک بحران ہے جو ہمارے سماج میں موجود ہے۔ مسئلہ صرف ایک فرد کا نہیں بلکہ پورے معاشرے کا ہے۔ ایک طرف شوہروں کو چاہیے کہ وہ اپنی بیویوں کو اعتماد اور وقت دیں، جبکہ خواتین کو بھی چاہیے کہ وہ خود کو ہر قسم کے دھوکے سے بچانے کے لیے ہوشیار اور باخبر رہیں۔ ساتھ ہی میڈیا، اور معاشرے کی یہ ذمہ داری ہے کہ ایسی خواتین کے لیے تحفظ، تعلیم، اور فوری مدد کے ذرائع فراہم کرے۔

Author

Editor Hum Daise
ADMINISTRATOR
PROFILE

Posts Carousel

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked with *

Latest Posts

Top Authors

Most Commented

Featured Videos

Author