Author Editor Hum Daise View all posts
نور العین
چند برس سے سوشل میڈیا نے پوری دُنیا میں اظہار رائے کی آزادی ، معلومات کی فراہمی اور عوامی شعور کے ارتقائی عمل کو نہ صرف تیزکیا، بلکہ روایتی ذرائع ابلاغ کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں، جہاں روایتی میڈیا عمومی طور پر طاقتور اشرافیہ کی پالیسیز کے مطابق چلتا ہے، وہاں سوشل میڈیا کا ایک متبادل انفارمیشن پلیٹ فارم کے طوربڑی تیزی سے ارتقاء ہوا ہے ، جہاں کمزور اور محروم طبقات کو بھی اپنی سوچ اور اپنے مسائل کے اظہار کا موقع ملا ہے ۔ مگر اس ساری آزادی اور ٹیکنالوجی کے استعمال میں ایک سوال مسلسل کیا جاتا ہے کیا سوشل میڈیا واقعی کمزور طبقات کی آواز بن کر سامنے آیا ہے یا یہ ان کا مذاق اُڑانے کا ایک نیا ذریعہ بن گیا ہے؟
روزمرہ کے مشاہدے میں اکثر یہ بات سامنے آتی ہے کہ کبھی کبھار کوئی ریڑھی لگانے والا، دیہاتی خاتون، یا معذور شخص کسی عمل یا بات کی وجہ سے اچانک سوشل میڈیا پر مشہور ہو جاتا ہے۔ آپ اسے سوشل میڈیا کا مثبت رد عمل کہہ سکتے ہیں کہ ایسے افراد جو معاشرے سےلگ بھگ کٹ کر الگ زندگی بسر کر رہے ہیں وہ بھی عوام کی توجہ حاصل کر رہے ہیں، لیکن اگر ہم گہرائی سے ان سب کاجائزہ لیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ درحقیقت ان ویڈیوز،تصاویر یا کلپس کا مقصد پسے ہوئے طبقات کی مشکلات کو اجاگر کرنے سے زیادہ ان کی سادگی، مظلومیت یا ان کے کسی مختلف انداز کو پیش کر کے ویوز لینا ہے تا کہ اس سے کمائی کی جا سکے
یہ رویہ نہ صرف غریب طبقے کی عزت نفس کے خلاف ہے، بلکہ یہ ان کے سماجی استحصال کی ایک نئی اور ڈیجیٹل شکل بھی ہے۔ سوشل میڈیا پر لاکھوں ویوز حاصل کرنے والے یہ کلپس اکثر ان لوگوں کی زندگی میں کوئی حقیقی تبدیلی نہیں لاتے، سوائے اس کے کہ کچھ لمحوں کے لیے ان کی شناخت کا مذاق بنایا جاتا ہے یا ان سے ہمدردی کا اظہار کیا جاتا ہے ۔ اکثر وڈیوز ان لوگوں کی رضامندی یا مکمل معلومات دیئے بغیر بنائی جاتی ہیں اور ان کلپس کو ایسے انداز میں پیش کیا جاتا ہے جس سےکلپ میں موجود افراد کی عزت نفس یا خود داری مجروع ہوتی ہے ۔ یہ ایک سنگین اخلاقی اور قانونی مسئلہ ہے ۔جسے اکثر لوگ نظر انداز کر دیتے ہیں۔
اگرچہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سوشل میڈیا نےبے شمار غریب افرادکو شہرت اور روزگار کے مواقع فراہم کیے ہیں اور کمزور لوگوں کے لئے حق کی آواز بنا ہے ۔ چند مثالیں ایسی بھی ہیں جن میں کسی عام چائے والے، کسی بزرگ یا نوجوان گائیک، یا کسی ریڑھی والے کی وائرل ویڈیو نے ان کی زندگی تبدیل کر دی۔ لیکن ان کامیاب مثالوں کی تعداد بہت کم ہے،جبکہ روزانہ سینکڑوں افراد کے کلپس صرف مذاق اور ویوز کے لیے سوشل میڈیا پر اپلوڈ کر دیے جاتے ہیں۔ یہ افراد نہ تو اِن کلپس سے کوئی مالی فائدہ حاصل کر پاتے ہیں اور نہ ہی یہ وڈیوز یا تصاویرمعاشرے میں ان کی مثبت شناخت بنانے میں مددگا ر ثابت ہوتے ہیں ۔
قصورصرف ان کلپس کو بنانے والوں کا نہیں ہے، بلکہ ان افراد کا بھی ہے جو انہیں دیکھتے اور شیئر کرتے ہیں۔ ہم ایک ایسے ڈیجیٹل کلچر کا حصہ بن چکے ہیں جہاں کسی کی غربت، سادگی یا کمزوری کو محض تفریح کے طور پر لیا جاتا ہے۔ ایسے”مذاق اُڑاؤ” ماحول میں ہمیں اجتماعی طور پر اپنے شعور کو بیدار کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہم سب کو یہ سمجھنا چاہئیے کہ کسی کے دکھ، محرومی یا کمزوری پر ہنسنا ایک انٹر ٹینمنٹ نہیں ، بلکہ یہ بے حسی ایک سماجی بیماری ہے جو ہمارے معاشرے کو اندر سے کھوکھلا کر رہی ہے۔
سوشل میڈیا ایک دو دھاری تلوار ہے۔ جہاں یہ کمزور طبقے کی آواز بن سکتی ہے، وہیں یہ ان کی عزت نفس کو بھی مجروح کر سکتی ہے۔ اصل مسئلہ ہمارے رویوں میں ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ سوشل میڈیا شعور، آگہی، اور مثبت تبدیلی کا وسیلہ بنے، تو ہمیں اپنے رویوں ، ترجیحات اور سوچنے کے اندازمیں تبدیلی لانی ہوگی۔ ہمیں ایسے مواد کو فروغ دینا ہو گاجوکمزور طبقے کی مشکلات ، جدوجہد اور حالات کو عزت اور ہمدردی کے ساتھ پیش کرے، نہ کہ اسے صرف تفریح کے لیے وائرل کرنے کے لیے اپلوڈ کیا جائے۔ کُل ملا کر بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا نہ تو ٹھیک ہے، نہ ہی خراب، یہ صرف اظہار کا ایک وسیلہ ہے۔ جیسے آپ چھری سے سبزی بھی کاٹ سکتے ہیں اور کسی کو زخم بھی دے سکتے ہیں ۔ اصل اہمیت اس بات کی ہے کہ ہم اسے کس نیت، خیالات، اور اخلاقی اصولوں کے تحت استعمال کرتے ہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ یہ واقعی کمزور طبقات کی آواز بنے، انسانوں میں شعور پیدا کرے اور علم کے ساتھ ساتھ تربیت کے لئے بھی مواد فراہم کرے تو ہمیں سوشل میڈیا کو علم و شعور کے پھیلاؤ کا میڈیم سمجھ کر استعمال کرنے کی ضرورت ہے ، نہ کہ صرف ‘وائرل مواد’ کے طور پر تاکہ اس سے ویوز لئے جا سکیں۔
Leave a Comment
Your email address will not be published. Required fields are marked with *