Author HumDaise View all posts
اعظم معراج
4دسمبر 2024
فیڈرل پبلک سروس کمیشن نے سی ایس ایس خصوصی امتحان 2023 کے تحریری امتحان کے نتائج جاری کر دیئے ہیں،519 امیدوار کامیاب ہوئے،فیڈرل پبلک سروس کمیشن کی جانب سے جاری کردہ نتائج کے مطابق سی ایس ایس (خصوصی امتحان) 2023 کے تحریری امتحان میں 519 امیدوار کامیاب قرار پائے ہیں، 21 ہزار 947 امیدواروں نے تحریری امتحان کیلئے رجوع کیا تاہم 15ہزار 245 امیدواروں نے تحریری امتحان میں شرکت کی جبکہ تحریری امتحان میں کامیابی کا تناسب 3.40 فیصد رہا ہے۔ فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے مطابق حتمی کامیابی کے لئے امیدواروں کا سی ایس ایس امتحان کے چاروں حصوں یعنی تحریری، میڈیکل، نفسیاتی اور زبانی ٹیسٹ میں حاضر ہو کر تمام امتحانات پاس کرنا لازم ہے، واضح رہے کہ سی ایس ایس (سینٹرل سپیریئر سروسز) ایک اہم مسابقتی امتحان ہے جس کا انعقاد ہر سال فیڈرل پبلک سروس کمیشن کی جانب سے کیا جاتا ہے، سی ایس ایس امتحان پاس کرنے والے امیدواروں کو 17 گریڈ کے آفیسر کے طور پر سرکاری ملازمت میں بھرتی کیا جاتا ہے، امیدوار سی ایس ایس امتحان میں کامیابی کے بعد سول سروس آف پاکستان میں شمولیت اختیار کرتے ہیں۔
آج شام سی ایس ایس خصوصی(اسپیشل ) کے تحریری امتحان کا نتجیہ آگیا اس میں پاس ہونے والے جن بچوں کے نام پر شک ہے،کہ وہ اقلیتی شہری ہیں۔ مندرجہ ذیل ہیں۔۔عروسہ اعظم، انیل کمار، کرن بشیر، جئے کمار، مریم، پوجا،،ذیشان اولویر پرویز، سنیل کمار، ڈینل خلیل،روپا متی،جیون یشوب یوسف،رابیل،شین تاج،ثمرون افراہیم 519 میں سے یہ صرف 15 نام ہیں۔شائدان ناموں میں سے چند اور بھی کم ہوجائیں۔ یا شائد چند مذید اضافہ بھی ہوں۔ کسی کے پاس اور اقلیتی پاس ہونے والے امیدواروں کے نام کنفرم ہوں تو ضرور بتائیں ۔ پندرہ کے 17 بھی ہوجائیں تو بھی یہ فہرست 519 میں بہت کم ہے۔ جبکہ یہ امتحان منعقد ہی صوبوں اور اقلیتوں کی کوٹہ پر ہر سال بچ جانے والی اسامیوں کو پر کرنے کے لئے ہی منعقد کیا گیا تھا۔۔ یہ اقلیتی نشستیں محتاط اندازے کے مطابق 100 کے قریب تھیں۔ اقلیتوں کا یہ کوٹہ دوہزار دس میں شہباز بھٹی شہید کی کوشش سے مخصوص کیا گیا تھا۔۔لیکن میری تحقیق کے مطابق اقلیتی امیدواروں کے پاس ہونے کی تعداد اس سے پہلے ایک آدھ بار ہی تین ہوئی ہے۔ہندو کمیونٹی کی کارکردگی اس سال بہت بہتر رہی۔۔ کیونکہ اس سے پہلے 77 سال میں ہندؤوں کی تعداد بہت کم رہی ہے ۔۔لیکِن برصغیر میں تعلیم کا استعارہ سمجھی جانے والی کمیونٹی (مسیحی )جنکے پاس لگ بھگ ملک بھر میں تین ہزار اسکولوں /تعلیمی اداروں کا نظام ہے۔ اسکے سماجی، آور خصوصا مذہبی ورکروں/راہنماؤں کے لئے اتنی کم تعداد ایک لمحہ فکریہ ہے۔۔ خدرارہ کچھ سوچیں ۔تحریک شناخت کے رضآ کاروں کے لئے ڈھیروں مبارک بادیں اور خراج تحسین جنہوں نے 2020 سے اس امتحان کی آگاہی مہم چلائی ہوئی تھی۔۔ 2020 میںاس امتحان کے منعقد کے اعلان ہونے کے بعد جب تحریک شناخت نے اس امتحان کی آگاہی مہم کو منظم انداز میں شروع کیا تو ۔اکثر مسیحی زعماء کہا کرتے تھے کہ اس آگاہی مہم کا زیادہ فائدہ ہندؤ بھائی اٹھائیں گے ۔ نتائج یہ ہی بتا رہےہیں ۔ جو خوشی کی بات ہے ۔۔ امید ہے ان ناموں میں شیڈول کاسٹ ہندوز بھی ہونگے ۔اگر ان کا تناسب کم یا نہ ہونے کے برابر ہؤا تو یہ دکھ کی بات ہوگی ۔۔یقینا اس آگاہی مہم کے اثرات نسل در نسل منتقل ہو نگے کیوں۔ بس خدا کرے مسحیو کے ان حقیقی محسنوں (تحریک شناخت کے رضاکاروں)کی آگاہی کا اثر اولذکر مسیحی شخصیات پر بھی ہو۔ جن کے زیر انتظام ہمارے تعلیمی ادارے اور گرجے کا نظام ہے۔ کیونکہ شیڈول کاسٹ ہندوز کی تعداد کم ہونے کی وجہ ان کی روایتی تاریخی پسماندگی ہوگی جبکہ مسحیوں کے کیس میں عام مسیحی کی اس تاریخی پسماندگی کے ساتھ ان کے سماجی سیاسی اور مذہبی راہنماؤں کی شعوری پسماندگی ایک بڑی وجہ ہے ۔۔ تھوڑا سا غیر روایتی سوچنے کی ضرورت ہے۔ پھر جب ایک سیاسی راہنماہ نے یہ راستہ بہت آسان کر دیا ہے تو سماجی راہنماؤں اور مذہبی راہنماؤں تو تھوڑی سی محنت سے اس کام سے نیک نامی اور دولتِ بھی بہت کما سکتے ہیں ۔اس کام کے لئے چندے اور ڈونیشن بھی بڑے مل سکتے ہیں بس
بس بقول اقبال
طرز کہن پر اڑنا اور آئین نو سے ڈرنے کی عادتیں ترک کرنی پڑیں گی ۔۔
Leave a Comment
Your email address will not be published. Required fields are marked with *