مدیراعلی: ندیم اجمل عدیم


علامہ گریفن جونز شررایک بے مثل شاعر’صحافی

علامہ گریفن جونز شررایک بے مثل شاعر’صحافی

 

 

ساحل منیر
شہرہ آفاق مسیحی شاعر علامہ گریفن جونز شرر یکم ستمبر 1924 کو منڈیالہ تیگہ ضلع گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے۔انہوں نے اپنی ابتائی تعلیم سی ٹی آئی مشن ہائی سکول سیالکوٹ سے جبکہ اعلیٰ تعلیم گورڈن کالج راولپنڈی سے حاصل کی ۔بعد ازاں بسلسلہ روزگار بطور ہیڈ کلرک ،اسٹینو گرافر اور کیشئر مخلف جگہوں پرملٹری خدمات سرانجام دیتے رہے۔ملازمت سے سبکدوشی کے کچھ عرصہ بعد آپ بیرون ملک (انگلینڈ)چلے گئے اور وہیں آسودہ خاک ہوئے۔گریفن جونز شرر ہندو و پاک کے مسیحیوں کیلئے ہمییشہ درد مندی کے جذبات سے لبریز رہتے تھے اور اپنی شاعری میں اسکا والہانہ اظہار کرتے تھے ۔انکی شاعری میں مسیحی قوم کی معاشی،معاشرتی اور مذہبی اصلاح کا عنصر ہمیشہ غالب رہا۔یہی وجہ ہے کہ ہندو پاک کے مسیحی حلقوں میں وہ “شاعر ملت” کے اعزازی خطاب سے جانے پہچانے جاتے تھے ۔اس خطہ ارضی کے مسیحیوں کی بیداری کیلئے انہوں نے لاتعداد منظومات تخلیق کیں۔وہ پرجوش،انقلابی و منفرد لہجے کے صاحب اسلوب شاعر تھے جنکے شعری مجموعوں میں نقوش صلیب،صلیبیں زندہ ہیں،ندائے صلیب،صلیبوں کے سائے،کیلیں کانٹے اور صلیب،عرفان صلیب،روداد صلیب اور کاروان صلیب شامل ہیں ۔علاوہ ازیں مسیحی مشاہیر جلد اول اور مشاہیر جلد دوئم انکی نثری تصانیف ہیں۔شعر و ادب کے ساتھ ساتھ علامہ گریفن جونز شرر نے بطور صحافی بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا اور بیرون ملک ماہنامہ تجلی و کرسچن ٹائمز جیسے معیاری رسائل کی ادرات و سرپرستی سنبھالے رکھی۔۔۔۔۔ مسیحی قوم کا یہ نابغہ روزگار شاعر،ادیب اور صحافی 28 دسمبر 1999کو انگلینڈ میں وفات پاگیا-

نمونۂ کلام : ؎
پھیلی ہوئی ہے بے حسی دنیا میں آج کل
گھبرا رہی ہے زندگی دنیا میں آج کل

کیسا ہے یہ مذاق کہ اپنے ہی شہر میں
ہر سانس ہے گھٹی ہوئی دنیا میں آج کل

جو لوگ آسماں پہ تھے دلدل میں پھنس گئے
ہر شے ہے اب نمائشی دنیا میں آج کل

پھیلا رہا ہے زہر کیوں مذہب کی آڑ میں
دور رواں کا آدمی دنیا میں آج کل

بھوکے پرند خشک جزیروں میں گھر گئے
کیسے بجھائیں تشنگی دنیا میں آج کل

شاید جہاں سے آج مسیحائی اٹھ گئی
پھیکی پڑی ہے روشنی دنیا میں آج کل

عادل کو سب خبر ہے مگر بولتا نہیں
یارو ہے کیسی منصفی دنیا میں آج کل

مجبور تو ضرور ہے ⁦پر بے اثر نہیں
لوگو ! شرر کی شاعری دنیا میں آج کل

اٹھو غم ناک خانوں میں سجا کر سولیاں رکھ دو
ہر اِک گم گشتہء منزل کی رہ میں سیڑھیاں رکھ دو

عشاء کا خون پی پی کر زباں میری کسیلی ہے
میرے منہ میں نئی انجیل کی شیرینیاں رکھ دو

میں گر گر کر اٹھا ہوں، سر بکف کنعاں میں پہنچوں گا
سرِ منزل تلک لاکھوں تڑپتی سولیا رکھ دو

پلے ہیں دم بہ دم ہم ظلم کے گہرے نشیبوں میں
سروں پہ لا کے کانٹوں کی ہمارے ٹوپیاں رکھ دو

بہ ہر حالت صدائے حق دہن سے میرے نکلے گی
حوادث کی میرے کندھوں پہ بھاری سولیاں رکھ دو

تہِ دیوارِ زنداں میری بد حالی پہ مت روؤ
دریچوں میں میرے سر و سمن کی ٹہنیاں رکھ دو

نکل جاؤں گا بچ کر وقت کے ایماں فروشوں سے
جبیں پہ میرے خونِ کلوری کی سرخیاں رکھ دو

بہت سی مشکلیں آسان ہو جائیں گی مِلت کی
صبا کے دوش پر شعرِ شررؔ کی شوخیاں رکھ دو

رکھ کے کندھے پہ صلیب آج بھی پھرتا ہے شرر
تونے دیوانے کو اپنے وہ فراست دی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!

آزادی مذہب کو ترستے رہے لیکن
ہم نے کبھی انجیل کی عظمت نہیں بیچی.

HumDaise
ADMINISTRATOR
PROFILE

Posts Carousel

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked with *

Latest Posts

Top Authors

Most Commented

Featured Videos