مدیراعلی: ندیم اجمل عدیم


اپنے عہد سے آگے کا شاعر

اپنے عہد سے آگے کا شاعر

ندیم اجمل عدیم

نثری نظم کے شعرا اکرام میں جو نام سر فہرست سامنے آتے ہیں ان میں عبدالرشید ،مبارک احمد ،کشور ناہید، احمد ہمیش، نصیر احمد ناصر. علی محمد فرشی، زاہد حسن. خیر زمان راشد. رحمان فراز افضال احمد سید،انیس ناگی ، سارہ شگفتہ،نجمہ منصور، سلیم آغا ، خالد ریاض خالد کے اسمائے گرامی شامل ہیں ۔نثری نظم کے بارے میں بہت سارے دانش ور اچھی رائے نہیں رکھتے کچھ تو اس صنف کو یکسر مانتے ہی نہیں اور کچھ بے بسی کے عالم میں صرف اتنا کہہ دیتے ہیں کہ یہ صنف آنے والے وقتوں میں اپنی جگہ بنا لے گی ۔ میرا بھی اسی مکتبہ فکر سے تعلق تھا لیکن ایک دن میں نے کارواں بک سنٹر ملتان میں شاعری کی کتب کے سیکشن میں عبدالرشید صاحب کے نثری نظموں کےمجموعے کی ورق گردانی کی تو میرے شعور سے گرد وغبار کا بادل چھٹتا چلا گیا عبدالرشید کی نظموں نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ بدمزہ اشعار ،بھدی پھسپھسی اور لاغرغزلوں سے پر مغز نثر ی نظمیں کہیں معتبر ہیں ۔میں خالد ریاض خالد کے فن و شخصیت کا اولین گواہ ہوں مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ میں نے خالد ریاض خالد کے ساتھ نواں شہر ملتان میں لڑکپن اور نوجوانی کے دن ایک ساتھ گزارے ہیں ۔میں خالد صاحب فکر اور صاحب طرز شاعر ہے وہ اپنے ارد گرد کے ماحول کے ساتھ ساتھ کائنات کی وسعتوں کا اظہار بڑے سلیقے اور بڑی دھج سے کرتا ہے اس کی نظم اس کے داخلی کرب سے چھُو کر امر ہو جاتی ہے ۔ اس کے ذریعہ اظہار کا قرینہ ایسا شارپ اور اچھوتا ہے کہ سُننے والا اسے ٹھہر کے سُنتا ہے۔ اس کے کرافٹ کے رنگ پھیکے نہیں پڑتے اور نہ ہی ان کی ہیت خراب ہوتی ہے ۔ اس نے ہزار نظمیں لکھی ہیں تو ہزار نظمیں ہی سننے کے لائق ہیں جو کوئی معمولی بات نہیں ۔ اگر قدرت نے اس کے ہاتھوں میں قلم تھمایا ہے تو اس نے بھی اس کی آبرو رکھی ہے۔ وہ بے چین روحوں کا ترجمان اور ہمارے عہد میں نثری نظم کا تن آور شاعر ہے ۔اس کے ہاں تشبیہات استعارے نیا لباس پہنے ہوئےملتےہیں مثال کے طور پر۔۔۔۔حاملہ رات کے چوپال پر، حرف حرف صحرا ساحل سے بچھڑا پانی ، زرد پتے سرد ہوا، یاد کی بالکنی،خود کلامی کے قہر سے لبریز،دھیان کی مسہری، تنہائی کے چابک، دعائوں کی بانسری،جبلت کے سانپ، چاہت کی بین،آوارگی کا چولا، گویاایک سے ایک گداز اور دلفریب خیال اس کی شاعری پر مہر ثبت کرتا ہے کہ وہ اپنے عہد سے آگے کا شاعر ہےخالدریاض خالد کی زیادہ تر کتابوں کے سرورق زوار حسین اور ذوالفقار بھٹی کے بنائے ہوئے ہیں ۔آئیے ان کی نظموں سے لطف کشید کرتے ہیں
“ اس نے مجھے کھو دیا تھا
اب اس کے بدن پہ۔۔۔۔
میرے نام کا کتبہ لگا ہے۔”
اس مختصر نظم میں شاعر محبت کی واردات اور سچائی کو جس خوب صورتی سے بیان کرتا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی انا کو محبت کی کھوکھلی بھینٹ نہیں چڑھاتا بلکہ اسے باور کرواتا ہے کہ وہی اس کےدکھ کا مداوا ہے
ایک اور نظم دیکھیے
میری طرح
کتنی نظمیں ادھوری پڑی ہیں
انہیں دیکھتا ہوں
ڈر جاتا ہوں
پھر بچوں سے چھپا کر
وصیت کی دراز میں رکھ دیتا ہوں
گویا خالد ریاض خالد انسانی جذبات کی شکست وریخت سے واقف ہے۔
وہ اپنے حال سے بھی بے خبر نہیں ۔

سرکس اپنے عروج پہ ہے
لیکن ابھی دام
کھرے نہیں ہوے
ایک اضافی شو
اور پیش کیا جاتا ہے
جس میں بوڑھے گھوڑے
جمہوریت کے ماسک لگاے
کھدرے سموں پہ
بھاری جوتے پہنے
شناخت پریڈ
رقص پیش کریں گے
یہ اضافی شو
مجمع بے بسی کے نام کیا جاتا ہے۔

” بے ثباتی”

کئی دن کی خاموشی کے بعد
بوڑھے برگد نے
شاخوں سے پتے گرا دیے

” کتاب میں لحد “

مٹی کے برتن
کورے بدن پہ
پھولوں کی پوشاک سجائے
شو کیس کی بھٹی میں جلتے رہتے ہیں
تتلیاں پھولوں کے رنگ
پروں پہ سجا کر
کتابوں میں حنوط ہو جاتیں ہیں

” آگہی کا بوجھ”

ایک خیال کی میت
لے کر بیھٹا ہوں
سوچوں کے قبرستان میں
خالد ریاض خالد نثری نظم کا ایک اہم توانا اور معتبر شاعر ہے اسے نظم لکھنے کا ہنر قدرت نے ودیعت کر رکھا ہے وہ اپنے ہم عصر شعرا میں نظم کا ایک معتبر اور مستند حوالہ ہے کچھ لوگ نثری نظم کو شاعری کی کوئی صنف نہیں مانتے مگرنثری نظم کے بارے میں معروف نقاد شمس الرحمن فاروقی اپنی کتاب تنقیدی افکار میں ایک جگہ یوں رقم طراز ہیں’’نثری نظم۔۔۔ میں شاعری کی پہلی پہچان موجود ہوتی ہے۔ شاعری کی جن نشانیوں کا ذکر میں بعد میں کروں گا، یعنی ابہام، الفاظ کا جدلیاتی استعمال، نثری نظم ان سے بھی عاری نہیں ہوتی۔۔۔ اگرچہ رباعی کے چاروں مصرعے مختلف الوزن ہو سکتے ہیں لیکن ان میں ایک ہم آہنگی ہوتی ہے جو التزام کا بدل ہوتی ہے۔ بعینہ یہی بات نثری نظم میں پائی جاتی ہے۔۔۔ اس طرح نثری نظم میں شاعری کے دوسرے خواص کے ساتھ موزونیت بھی ہوتی ہے۔ لہٰذا اسے نثری نظم کہنا ایک طرح کا قول محال استعمال کرنا ہے، اسے نظم ہی کہنا چاہیے۔”غالباً یہی بات نظم کے معروف شاعر رحمان فراز خالد ریاض خالد کی نثری نظم پر گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ “شاعر بساط بھرپور کوشش کرتا ہے کہ وہ اپنے فنی تجربات کو کامیاب بنائے وہ اپنی فنی صلاحیتوں کے کماحقہ مظاہرے سے کبھی غافل نہیں رہتا۔”
شاعر اپنے خیال اور فکر کو کوئی نہ کوئی جامہ پہنانے کی کوشش کرتا ہے basically شاعر کاخیال اہم ہے اگر کسی شاعر کے پاس خیال نہیں تو شاعری کے اوزان اور ان سے آشنائی بے کار ہے۔

HumDaise
ADMINISTRATOR
PROFILE

Posts Carousel

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked with *

Latest Posts

Top Authors

Most Commented

Featured Videos