Author HumDaise View all posts
عمران میر
شعروادب سے اگر کایناتی سچائیاں نکال دیں یا پھر ارضی عرفان کو منہا کر دیں تو کیا بچتاہے؟۔۔۔۔شعر سے اگر اس کے عہد کی بو باس نہیں آتی تو اسے کیا کہاجاے؟ شاعری کے سماجی نصب العین کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاے تو اس پہ کبیدہ خاطری بنتی ہے یا نہیں۔۔۔۔خیر۔۔۔یہ روح فرسا سوالات بہر صورت سنجیدہ فکر قارئین کو مائل بہ اضطراب رکھتے ہیں۔فی زمانہ نمایش فن کا چلن مبتلاے فن رہنے والوں کو چرکے لگاتاہے۔اور موجودہ عہد کی بیشتر شاعری محض قافیہ پیمائی تک محدود اور گیرای سے تہی دکھای پڑتی ہے۔
کتنے اہل قلم ہیں جنہیں سماجی تفاوت پہ کڑھنے کی توفیق حاصل ہے۔ سماجی ابتری کے نظائر انہیں جھنجھوڑتے ہیں یا ارضی تلخیاں انہیں تحریک کلام دیتی ہیں۔ آج کل میڈیای شعرا استاد الاساتذہ ٹھہرے ٗجینز پتلون سے لے کر ناف و پایجامے تک کو نہیں چھوڑ رھے۔ شاعر جو معاشرے کی آنکھ تھا وہ آنکھ بھینگی تو کیا سرے سے ہی اندھی ہو گئ شہرت کی شہوت نے کلام کو لایعنیت سے جوڑ کر مردہ لفظوں کا کھنڈر بنا دیا۔اس پہ بھی ہمارے شعری بونوں کو خبط عظمت کی علت نہیں جاتی,ہمارے عہد کی بیشتر شاعری سطحی مبتذل تکرار اور یکسانیت کا شکار ہے ۔ اس میں موضوعاتی تنوع کایناتی و آفاقی آدرش کا فقدان ہے۔ جو تھوڑے بہت تاثیر والے تھے انہیں یونی کے مشاعروں نے بازاری بنا ڈالا۔۔۔اس سمے جب کٹھور رتیں انسانوں سے جینے کی آخری رمق بھی چھیننے کے درپئے ہوں اس پرہول ماحول میں بشارتیں بانٹنے والا گیان دھیان والا کوی تو ہو۔۔۔ہمارے فرحت عباس شاہ اس قحط الرجال میں غنیمت ہیں کہ وہ شاعری کے سماجی نصب العین کے داعی ہیں۔ان کی شاعری اسرار ذات اسرار کاینات اور دگرگوں حالات کا ایسا نقش دلگداز ہے جس سے خون دینے والے دوانوں اور خون چوسنے والی جونکوں کے مابین امتیاز کیا جا سکتا ہے۔
فرحت عباس شاہ عظمت انسان کے شاعر ہیں۔ جمہور کے تخلیق کار ہیں کسی شاہ مدار کے نہ تو اسیر ہیں اور نہ ہی جاہ و حشمت والوں سے دبنے والے ہیں بلکہ ان کا شخصی مزاج شاعرانہ انا باطنی حمیت ان کے شعروں میں تاثیر کا امرت گھولتی چلی جاتی ہے ۔
مزاحمت کریں گے ہم۔۔ان کا ایسا معیاری شعری مجموعہ ہے جس کا ہر شعر عصری آشوب کو تجسیم کر کے انہیں ارضی عرفان کا اتم مہا گیانی بنا دیتا ہے۔
مزاحمت کریں گے ہم۔۔۔میں موجود شاعری راندہ درگاہ ذلتوں کے مارے ہوؤں کی ایسی بکا ہے جس سے ایوان شہی پہ لرزہ طاری ہو جاتا ہے۔ عوام کی حالت زار اور مجبور و مقہور عامتہ الناس کی داخلی اور باطنی سچائیوں کو شاہ صاحب نے مشاہدے بصیرت اور شاعرانہ قرینے سے قلمبند کر کے یزید صفت حاکموں ایوانوں میں بیٹھے بے ضمیروں اور حرام خور گِدھوں پہ اپنے پُر اجلال اسلوب سے کاری وار کیے ہیں۔
کچھ مطالع دیکھیں
یہی ہے رسم یہی ہے نظام دنیا میں
اُدھر ہیں خاص اِدھر ہیں عوام دنیا میں
تجھ کو اس درد کا پتہ ہی نہیں
تو عوامی کبھی رہا ہی نہیں
وہ چاروں سمت سے تنظیم کر کے مارتے ہیں
ہمارے جیسوں کو تقسیم کر کے مارتے ہیں
نگری نگری بستی بستی
روٹی مہنگی عزت سستی
یہ جب بھی جعلی کوی بادشاہ بناتے ہیں
دراصل ایک نئ ابتلا بناتے ہیں
ممکن تھا جتنا حشر اٹھایا گیا سمجھ
جمہوریت کو کھیل بنایا گیا سمجھ
مجھ کو مارا اور تجھے دھمکایا جاتا ہے
جنگوں کو جب استعمال میں لایا جاتا ہے
ہر نئے روز کے بحران کے پیچھے کیا ہے
گر ہے شیطان تو شیطان کے پیچھے کیا ہے
جسے نہ صبح کا غم ہے نہ کوی شام کا دکھ
سمجھ سکے گا وہ کیسے مری عوام کا دکھ
فرحت عباس شاہ نے اپنے عہد کے سلگتے مسائل اور بلکتے انسانوں کی آہوں کراہوں سے آنکھیں نہیں پھیریں بلکہ ان بے نواؤں کو اپنے شاعری کے ذریعے زندگی کی نوید بانٹی انہیں مایوسی کے پاتال میں دھنسے کے بجاے انہیں مزاحمت آشنا کر کے ان کے ٹھنڈے جزبوں کو انتقام کے جوالے میں بدلنے کی مساعی کی اور استحصالی گماشتوں کو اس طرح چتاونی دی
مٹاو گے دباؤ گے جہاں جہاں مزاحمت
دکھای دے گی اب تمہیں وہاں وہاں مزاحمت
ہمارے دل پہ ہاتھ رکھ کے سن دھڑک ترنگ کی
ہمارے آنسوؤں میں دیکھ ہے جواں مزاحمت
آُدھر ہے جبر اور اِدھر
جنم جنم مزاحمت
ہے تیرا مشغلہ ستم
مرا علم مزاحمت۔۔۔
فرحت عباس شاہ عصری علوم سے بہرہ ور لکھت کار ہیں تاریخ فلسفہ بشریات اور تحقیق و تدقیق ان کی گھٹی میں شامل ہے اور اس کے علاؤہ آپ ایک نکتہ رس نقاد ہیں۔وہ خود تخلیقی سطح پر متحرک رہتے ہیں اور یہ تحرک انہیں تخلیقی تازگی فراہم کرتا ہے ۔ان کا طویل شعری سفر کہیں بھی نہیں ڈگمگایا ان کی شاعری سلاست سے ہوتی ہوی کوچہ سیاست میں بھی ثمربار ہوی اور مزاحمت میں بھی انہوں نے اپنا جدا رنگ نکالا ہے اور عصری آشوب کو شعروں میں ڈھالا ہے ان کی یہ کتاب ایک انتخاب کا درجہ رکھتی ہے اگر آپ کوڑھ مغز اور کور چشم نہیں تو یہ شعری مجموعہ آپ کے کام آ سکتا ہے
Leave a Comment
Your email address will not be published. Required fields are marked with *