مدیراعلی: ندیم اجمل عدیم


محمد شفیع سے شاکر شجاع ابادی تک کا سفر

محمد شفیع سے شاکر شجاع ابادی تک کا سفر

  روندی رہی انسانیت، انسان کھلدا رہ ڳیاآدمی دی سوچ تے، حیوان کھلدا رہ ڳیا

 

ڈاکٹر نسیم اختر

محمد شفیع المعروف شاکر شجاع آبادی سرائیکی وسیب کا مقبول ترین شاعر ہے. جس نے سرائیکی شاعری کو اپنی شناخت بنایا اور سرائیکی زبان کی ایک زور دار آواز بن کر اُبھرا. ظاہری طور پر مجذوب نظر آنے والا یہ انسان انتہائی حساس شاعر ہے جو ذاتی دکھ سے کہیں زیادہ وسیبی دُکھ کا مبلغ ہے.شاکر اپنی حیاتی کے دُکھوں کی سانجھ کے ساتھ جیتا ہے. دُکھ پالتا ہے اور دُکھ کہتا ہے. سیالوں کے قبیلے کا یہ مونجھا رانجھا تمام ہیروں سے خوف زدہ ہے. مگر تمام کیدوؤں سے نبرد آزما ہے. اُس کے سامنے مزاحمتی عناصر کا انبار ہے جو اُس کی شعری تخلیق کا طاقتور سبب ہے.شاکر نے اپنے ذاتی دُکھ کو وسیب کے دُکھ میں مدغم کر دیا ہے. وسیب اور شاکر ہم جان ہو گئے ہیں. شاکر اگرچہ رسمی تعلیم میں بہت زیادہ سند یافتہ نہیں مگر معاشرتی مطالعہ میں اس نے D-Let کر رکھی ہے. بیماری اور بیمار معاشرے کے جبر نے اس کی قوت گوئی کو مجروح کیا ہے. مگر ذہنی و تخلیقی صلاحیت اُسی طرح تنو مند ہے جس سے وہ بھرپور کام لیتے ہیں. یہی وجہ ہے کہ شاکر کا شعری تخلیقی عمل کبھی سُست نہیں رہا.وہ زندگی کی رمزوں کا شناساں ہے سو وسیب کا رمز شناس ہے. موجودہ دَور میں لوک شاعری کا شیکسپیئر ہے. جسے رسمی اسناد کی ضرورت نہیں. وہ حیاتی کے درد کا سائیکالوجیسٹ ہے. شاعری کے ذریعے اپنا اور اپنے وسیبیوں کا کتھارسس کرتا ہے. علامتی انداز میں اور کبھی واشگاف انداز میں حقیقت نگاری کرتا ہے.مثلا وہ شعر جس کی پڑھت ایوانوں تک بھی گونجتی رہی؛ دراصل ذومعنی شعر ہے جس میں ایک محنت کش کو جہاں تسلی اور صبر کا درس دیا جا رہا ہے کہ محنت کرنے والا طبقہ محنت تو کرتا ہے مگر اُس کا اجر یا اُجرت اُتنی نہیں ملتی ہے. دنیاوی خُداؤں سے مُنہ موڑ کر وہ اُس کی ارداس خُدا واحد سے ضرور کر سکتا ہے. کیونکہ ہم پر اپنے حصے کا دیا جلانا فرض ہے. باقی جزا اور سزا میرے رب کا کام ہے. اور وہ ضرور انصاف کرنے والا ہے.

شعر بھی ملاحظہ ہو :-
~ تو محنت کر، تے محنت دا صلہ ڄاݨے خُدا جاݨے
تو ݙیوا ٻال کے رکھ چا، ہوا جا‌ݨے خُدا ڄاݨے

عصر حاضر میں دُنیا کے سیاسی اور معاشرتی ظالمانہ رویوں کی کی بات کی جائے تو اس کے رد عمل میں کئی مُلک مٹی کا ڈھیر بن چکے ہیں. عراق، شام اور اب فلسطین کی صورت حال انسانیت کے لیے بہت بڑا سوالیہ نشان ہے. جہاں مسلمان بچے کوڑے کے ڈھیروں سے کھانے پینے کی چیزیں ڈھونڈتے نظر آتے ہیں. فلسطین کے مجبور مسلمان مرد، عورتیں اور بچے لاتعداد مارے جا رہے ہیں. جو بچ گئے ہیں وہ بھوک اور پیاس سے بلک بلک کر مَر رہے ہیں. مگر ورڈ پولیٹکس کے سامنے اس وقت انسان اور انسانیت بے معنی چیز بن گئی ہے. ویسے بھی جہاں آجرانہ سوچ غالب آجائے وہاں انسان کی حالت حیوان کے مقابلے میں کم تر سمجھی جاتی ہے. جیسے شاکر کہتا ہے :-

روندی رہی انسانیت، انسان کھلدا رہ ڳیا
آدمی دی سوچ تے، حیوان کھلدا رہ ڳیا

یہ شعر بیان کردہ ایسی ہی صورتحال کا غماز ہے. ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے لفظ “انسانیت” دُنیا کی تمام لُغات سے نکال دیا گیا ہے.
ایک اور جگہ شاکر اپنے وسیب میں ہونے والے غیر متوازن معاشرتی رویوں پر نوحہ کناں ہے:-

میݙی دھی تاں پُھٹی چُݨ کے آندی ہے ادھ رات کوں
گھنݨاں پوندے میکوں اٹا نت ادھارا شام کوں

حقیقت نگاری کے اس پچھانویں /عکس کی توضیح میرے نازک قلم سے زیادہ بھاری ہے. جس میں وسیب کا مرد ہر لحاظ سے بالا تر اور صنف نازک سب کچھ کرنے کے بعد بھی “شودی، مظلوم اور کمزور” جیسے القابات کی حق دار ٹھہرتی ہے.شاکر کی شاعری بارے رانا محبوب اختر لکھتے ہیں “شاکر شجاع آبادی سرائیکی شاعری کا عطاءاللہ عیسیٰ خیلوی ہے۔ ذاتی دکھ کا تجربہ اور سرائیکی وسیب کی محرومیاں شاکر کی شاعری میں شامل ہو کر سمجھ اور اظہار کی طاقت ور علامت بن گئی ہے ۔ سندھ وادی میں لوگوں نے تلوار کی جگہ شاعری میں دنیا سے بات کی۔ شاکر کی شاعری کی ہر سطر لشکری ہے اور لفظوں کی کھڑی کی ہوئی فوج ہے جسے دنیا شاکر کی شاعری کہتی ہے”اس کے مصرعوں میں حقیقت کا رنگ نا صرف گہرا ہے بلکہ کسیلا بھی ہے۔ جب وہ کہتا ہے ‘

گھاݨی ݙکھ دی جے تئیں چالو ہے نئیں سکھ دے ٻیڑے تردے
ایہو غم سڄݨاں دا گھن مرسی جیڑھا شاکر حال نظردے

ان مصرعوں میں اس کے دکھ کا دائرہ بھنور کی طرح بڑھتا ہے جس کے متوازن دائرے بناتی ہوئی لہروں نے اسے اپنی گرفت میں کیا تو اس کی شعور کی طاقت نے اس بھنور کے دائرے بڑھا دیے۔ اس کا قریبی دائرہ اس کی ذات اور فیملی کا ہے جس کا دکھ اسے جسمانی اذیت کی طرف دکھیل رہا ہے۔ اس کے اسرار کے باوجود اس کی اولاد تعلیم کی طرف راغب نہ ہوسکی اب اس پل کا دکھ ان کی پہچان صرف شاکر کا بیٹا ہے ، تک محدود ہے۔ معیشت کی گتھی کی سخت گانٹھ یا خالی پیٹ کی ذہنی نقاہت یا پھٹی آنکھیں اس کا مسئلہ اور مجبوری نہیں۔ اس بھنور کے دائرے اور پہلے دائرے کے درمیان اسے پورا سرائیکی وسیب نظر آتا ہے جسے اپنے ساتھ گلے لگا کر اس کے دکھ کو محسوس کرتا ہے ، اس کی بات کرتا ہے اور اپنائیت کا اظہار کرتا ہے۔

1 comment
HumDaise
ADMINISTRATOR
PROFILE

Posts Carousel

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked with *

1 Comment

  • ٩
    March 19, 2024, 10:24 am

    واہ واہ بہوں سوہݨا آرٹیکل میم سدا سلامت رہو

    REPLY

Latest Posts

Top Authors

Most Commented

Featured Videos