Author Editor Hum Daise View all posts
سموئیل کامران، ملتان
روایت ہے کہ یسوع مسیح نے یوحنا اور یعقوب کو پیروی کیلئے بلایا تو یوحنا کے پاس ایک تھیلی دیکھی۔ پوچھنے پر یوحنا نے بتایا کہ اس میں دو روٹیاں ہیں۔ ایک آج کیلئے اور ایک کل کیلئے۔ یسوع مسیح نے کہا، ” خدا پر تمہارا توکل تو پرندوں سے بھی کم ہے۔” پھر شاگردوں کو دعائے ربانی سیکھائی جس میں روزانہ کی روٹی کی درخواست کی گئی ہے۔ (روایت سینہ بسینہ کہانیاں ہیں، جن کا الہامی ہونا ثابت نہیں۔ مگر سبق آموز ہونے کی وجہ سے بیان کی جاتی ہیں۔) چند درویش محفل میں بیٹھے تھے۔ مسلہ در پیش تھا کہ صبر کیا ہے۔ ایک بولا،” جو مل جائے کھالو۔ جو نہ ملے اس کی ضد نہ کرو۔” استاد جی بولے،” یہ تو کتے جتنا صبر ھوا۔ جتنا ملا کھا لیا، مالک کا در نہ چھوڑا۔ مالک کے پاؤں چاٹنا نہ بند کیا۔” جب درویشوں نے پوچھا کہ ہمارا صبر کیا ہے تو جواب ملا،” جو دل دکھائے اس کو تلخ جواب نہ دیا جائے، دل پر بات نہ لی جائے اور بدلے میں برا نہ چاہا جائے۔ جب ملے تو پہلے اپنے سے زیادہ مستحق کو دیا جائے۔ اس کے بعد کھا لینا اور دوسروں کیلئے رب سے درخواست کرتے رہنا۔
مسیحیت دراصل فقیری اور درویشی ہے۔ آسمان کی بادشاہی کی تلاش میں رہو۔ یہ مختصر زندگی اس بادشاہت میں جانے کی تیاری کا وقت ہے۔ مسلہ یہ ہے کہ جو یہ سبق دیتے ہیں وہ خود یہاں کی بادشاہی کے تعاقب میں ہیں۔ شاید اسی لیے ان کے وعظ موثر نہیں۔ اب تو روٹی کے علاؤہ اور بھی اشیاء ضروری ہو گئی ہیں۔ ٹوہر، شہرت اور دوسرے لوگوں کی ٹانگیں کھینچنا۔جس نے چونچ دی چوگا دے گا۔ توکل رب پر نہیں اپنے زور بازو اور اپنی چالاکیوں پر ہے۔ جبکہ بات بلکل الٹ ہے۔ جب پانچ روٹیوں اور دو مچھلیوں سے 5000 لوگوں کو سیر کیا گیا تو یہ بات شاگردوں کو بھی سیکھائی گئی۔” میں جوان تھا اور اب بوڑھا ہوں، تو بھی میں نے صادق کو بیکس اور اسکی اولاد کو بھیک مانگتے نہیں دیکھا۔”
(داؤد کا زبور، 25/37)
Leave a Comment
Your email address will not be published. Required fields are marked with *