Author Editor Hum Daise View all posts
تحریر: سموئیل بشیر
لوکل گورنمنٹ کا نظام کسی بھی جمہوری ریاست میں گراس روٹ سطح پر عوامی مسائل کے فوری حل اور مقامی ترقی کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ پنجاب حکومت نے حالیہ لوکل گورنمنٹ بل میں امیدواروں کے لیے تعلیمی قابلیت کی شرط عائد کرنے کی تجویز دی ہے، جس پر بحث جاری ہے۔
یک اہم تضاد یہ ہے کہ جن اراکینِ پارلیمنٹ نے اس بل کو منظور کیا، ان پر خود ایسی کوئی تعلیمی شرط لاگو نہیں ہے
قانون سازوں کا مؤقف یہ ہے کہ مقامی حکومتوں میں معیاری انتظامی کارکردگی کے لیے تعلیم یافتہ افراد کی ضرورت ہے۔ تعلیم یافتہ نمائندے بہتر مالی نظم و نسق، ترقیاتی منصوبوں کی نگرانی اور قانون کی پاسداری کو یقینی بنا سکتے ہیں۔
تاہم، زمینی حقائق کچھ یوں ہیں کہ دیہی علاقوں میں تعلیمی سہولتوں کی کمی کی وجہ سے کئی باصلاحیت افراد صرف اس لیے محروم رہ جائیں گے کہ وہ مطلوبہ ڈگری یا تعلیم مکمل نہیں کر سکے۔
تعلیم کی بنیاد پر امیدواروں کو محدود کرنا جمہوری اصولوں، یعنی عوامی حقِ انتخاب، کے خلاف ہے۔
حقیقی قیادت کا انحصار صرف ڈگری پر نہیں بلکہ دیانت داری، عوامی خدمت، اور مسائل کے حل کی صلاحیت پر ہوتا ہے۔
عجیب بات یہ ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں انتخاب لڑنے کے لیے کسی قسم کی تعلیمی شرط موجود نہیں۔
2002 میں جنرل پرویز مشرف کے دور میں ایک مرتبہ ایم این ایز/ایم پی ایز کے لیے بی اے کی شرط رکھی گئی تھی، جو بعد میں سپریم کورٹ نے ختم کر دی (بحوالہ: سپریم کورٹ آف پاکستان کا فیصلہ، 2008)۔
موجودہ قانون ساز ادارے خود ایسے ارکان سے بھرے ہیں جن کے پاس ڈگری نہ ہونے یا جعلی ڈگریوں کے اسکینڈلز کی مثالیں موجود ہیں۔
تو پھر سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر اعلیٰ قانون ساز اداروں کے لیے تعلیم ضروری نہیں، تو گاؤں اور یونین کونسل کے نمائندوں پر اتنی سخت شرط کیوں؟
جمہوریت میں عوام کو حق حاصل ہے کہ وہ جسے چاہیں اپنا نمائندہ منتخب کریں، چاہے وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہو یا نہ ہو۔ عوامی خدمت، کردار کی پختگی اور دیانت داری کسی سند کی محتاج نہیں۔ ۔
تعلیمی قابلیت کو معیار بنانے کا نتیجہ یہ ہو سکتا ہے کہ:
عوامی نمائندگی محدود ہو جائے۔
حقیقی عوامی قیادت راستے سے ہٹ جائے۔
متمول یا مراعات یافتہ طبقات کا غلبہ مزید بڑھ جائے۔
پنجاب لوکل گورنمنٹ بل میں تعلیمی شرط کا نفاذ ایک سطح پر “بہتری” کی نیت سے کیا گیا ہے، لیکن یہ عمل خود جمہوری اصولوں، مساوات اور عوامی حقِ انتخاب کی روح سے متصادم نظر آتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ:
تعلیم کے بجائے کارکردگی، کردار اور عوامی خدمت کو معیار بنایا جائے۔
دیہی علاقوں میں تعلیم کا معیار بہتر بنایا جائے تاکہ قدرتی طور پر تعلیم یافتہ قیادت ابھرے۔
تمام سطحوں پر (پارلیمنٹ سے لے کر لوکل گورنمنٹ تک) یکساں معیار اپنایا جائے۔
پاکستان کو ایک ایسا نظام چاہیے جہاں قائدانہ صلاحیت کا تعین ڈگریوں سے نہیں، عوام کی خدمت اور شفاف طرزِ حکومت سے ہو۔
Leave a Comment
Your email address will not be published. Required fields are marked with *