Authors Hum Daise View all posts Editor Hum Daise View all posts
تحریر: سموئیل بشیر
انسانوں کو ان کے مذہب، نسل یا عقیدے کی بنیاد پر نہیں پرکھا جا سکتا، کیونکہ احترام کا حق ہر انسان کا پیدائشی حق ہے( نلسن منڈیلا)
جب اقلیتیں بولنے سے ڈرتی ہیں اور اکثریت سننے سے انکار کرتی ہے، تو معاشرتی ہم آہنگی کی بنیادیں ہلنے لگتی ہیں۔ پاکستان میں ایک مدت سے اقلیتوں کے حقوق کا چرچا تو بہت ہوا، مگر عملی اقدامات ہمیشہ کمزور اور غیر مؤثر رہے۔ شاید اسی خلاء کو پر کرنے کے لیے 2025 میں ایک نیا سفر شروع ہو رہا ہے۔ نیشنل کمیشن برائے اقلیتی حقوق کا قیام، جو اب ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے اپنی شناخت پانے جا رہا ہے۔یہ محض ایک ادارہ نہیں ہوگا، بلکہ ایک وعدہ ہوگا، اقلیتوں کے ساتھ مساوی سلوک کا، ان کے مذہبی، معاشرتی اور انسانی وقار کے تحفظ کا۔ کمیشن کا مقصد صرف رپورٹس بنانا نہیں، بلکہ حقیقی مسائل کو حکومت کے ایوانوں تک پہنچانا اور ممکنہ حل تجویز کرنا ہوگا۔
2025 کا قانون کمیشن کو قانونی تحفظ فراہم کرتا ہے۔
کمیشن کا ڈھانچہ ایسا ترتیب دیا گیا ہے کہ ہر بڑی اقلیتی برادری کی نمائندگی ہو۔
انتخاب کے عمل میں شفافیت اور غیر جانبداری کو بنیاد بنایا گیا ہے تاکہ نمائندے حکومت کی زبان نہ بولیں، بلکہ اپنی کمیونٹی کی حقیقی آواز بنیں۔
اہلیت کے لیے صرف مذہبی شناخت کافی نہیں، بلکہ تجربہ، دیانتداری اور عوامی خدمت کا ریکارڈ بھی لازم قرار دیا گیا ہے۔
قانون میں کمیشن کو “خودمختار” قرار دیا گیا ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ خودمختاری محض الفاظ کی حد تک ہوگی یا حقیقت میں بھی ؟
بجٹ کی منظوری اب بھی وزارت خزانہ کے ہاتھ میں ہے۔
کمیشن کی سفارشات کو لازمی عملدرآمد کا درجہ نہیں دیا گیا۔
اگر کمیشن صرف مشورے دینے تک محدود رہا تو یہ ایک اور بیکار ادارہ بن سکتا ہے۔
پاکستان کے آئین کی روح، اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر، اور قائداعظم محمد علی جناح کی 11 اگست 1947 کی تقریر، سب اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ پاکستان میں ہر شہری، چاہے وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو، مساوی حقوق کا حقدار ہے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ یہ وعدے محض کتابوں میں نہ رہیں۔ نیشنل کمیشن برائے اقلیتی حقوق کو حقیقی بااختیار بنانا ہوگا۔
کمیشن کو تحقیقاتی اختیارات دیے جائیں۔ اس کی سفارشات پر حکومت کو عمل درآمد کا پابند بنایا جائے۔
اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ صرف اقلیتوں کا مسئلہ نہیں، بلکہ یہ کسی بھی قوم کی اخلاقی بنیادوں کا پیمانہ ہے۔
نیشنل کمیشن برائے اقلیتی حقوق کے قیام سے ایک نئی امید ضرور جاگی ہے۔ لیکن اس امید کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے مسلسل جدوجہد، سیاسی ارادہ، اور سماجی شعور کی ضرورت ہوگی۔
Leave a Comment
Your email address will not be published. Required fields are marked with *