Author Editor Hum Daise View all posts
تحریر: سموئیل بشیر
11 اگست 1947 کو جب قائداعظم محمد علی جناح نے پاکستان کی دستور ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ “آپ آزاد ہیں، آپ آزاد ہیں اپنے مندروں میں جانے کے لیے، آپ آزاد ہیں اپنی مساجد میں جانے کے لیے، یا کسی بھی اور عبادت گاہ میں…” — تو یہ ایک ایسے پاکستان کا خواب تھا جو مذہبی آزادی، رواداری اور برابری پر قائم ہو
پاکستان کا قومی پرچم ایک گہرا سبز رنگ اور سفید پٹی پر مشتمل ہے، جس میں سبز رنگ مسلمانوں کی اکثریت کو ظاہر کرتا ہے، جب کہ سفید پٹی مذہبی اقلیتوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ ہلال ترقی اور ستارہ روشنی اور علم کا نشان ہے۔یہ پرچم ایک نظریے کا اعلان تھا کہ پاکستان صرف مسلمانوں کا وطن نہیں بلکہ ان تمام اقلیتوں کا بھی ہے جو اس سرزمین پر بستے ہیں۔ سفید پٹی اس امر کا مظہر تھی کہ اقلیتیں نہ صرف پاکستان کی سماجی ساخت کا حصہ ہیں بلکہ ان کے حقوق بھی محفوظ ہیں۔بدقسمتی سے قیام پاکستان کے بعد اقلیتوں کو جن چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا، وہ اس علامتی برابری سے میل نہیں کھاتے-احمدیوں کو 1974 میں غیر مسلم قرار دیا گیا، جبکہ کئی اقلیتیں توہین مذہب کے قوانین کے غلط استعمال کا شکار بنیں۔ہندو، مسیحی، سکھ اور دیگر اقلیتیں اکثر تعلیم، ملازمت اور تحفظ میں امتیاز کا شکار رہیں۔ سیاسی نمائندگی: اگرچہ اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستیں موجود ہیں، لیکن ان کا اصل سیاسی اثر و رسوخ محدود ہے۔اگرچہ آئین پاکستان اقلیتوں کے مساوی حقوق کی ضمانت دیتا ہے، لیکن زمینی حقائق کچھ اور ہیں۔ چند مثالیں–جوزف کالونی، لاہور (مارچ 2013): ایک مسیحی نوجوان پر توہین رسالت کا الزام لگتے ہی ہجوم نے پورے مسیحی محلے کو جلا کر راکھ کر دیا۔گھوٹکی، سندھ (2019): ایک ہندو استاد اور پرائیوٹ سکول کے پرنسپل نوتن مل پراپنے ہی نویں جماعت کے مسلم طالب علم نے جھوٹا الزام لگایا کہ استاد نے توہین رسالت کی ہے۔ اس بات کو لے کر مشتعل ہجوم نے سکول اور مقامی مندر پر حملہ کردیا۔جوزف کالونی، لاہور (مارچ 2013): ایک مسیحی نوجوان پر توہین رسالت کا الزام لگتے ہی ہجوم نے پورے مسیحی محلے کو جلا کر راکھ کر دیا۔
گھوٹکی، سندھ (2019): ایک ہندو استاد اور پرائیوٹ سکول کے پرنسپل نوتن مل پراپنے ہی نویں جماعت کے مسلم طالب علم نے جھوٹا الزام لگایا کہ استاد نے توہین رسالت کی ہے۔ اس بات کو لے کر مشتعل ہجوم نے سکول اور مقامی مندر پر حملہ کردیا۔مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات کی خدمات ؛
ڈاکٹر روتھ فاؤ (جرمن نژاد): جنہیں “پاکستان کی مادرِ ٹریسا” کہا جاتا ہے۔ اُن کی خدمات سے پاکستان 2016 میں “کوڑھ فری ملک” قرار پایا۔
جسٹس اے آر کارنیلیئس، جسٹس بھگوان داس، جیسے لوگ جنہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان کے طور پر عدلیہ میں اعلیٰ اخلاقیات اور شفافیت کی مثال قائم کی۔
سراج دین (سکھ پولیس افسر): جنہوں نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں قربانی دی۔
روشن لال (ہندو، سندھ سے رکنِ اسمبلی): جنہوں نے اقلیتی حقوق کے لیے متعدد قانونی بلز پیش کیے۔
امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی )USCIRF) نے 2024 کی رپورٹ میں پاکستان کو “خصوصی تشویش کا حامل ملک” قرار دیا، جہاں توہین مذہب کے قوانین اکثر اقلیتوں کے خلاف استعمال ہوتے ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی جبری مذہب کی تبدیلی، عبادت گاہوں کی بے حرمتی اور نفرت انگیز مواد پر تشویش ظاہر کی۔
توہین مذہب قوانین کی نظر ثانی، غلط استعمال کو روکنے کے لیے سخت قانونی تقاضے اور شفاف تحقیقات کی ضرورت ہے۔
اقلیتوں کی عبادت گاہوں کا تحفظ، ریاستی سطح پر سیکیورٹی اور بحالی کے اقدامات کیے جائیں۔
نصاب میں مذہبی ہم آہنگی کا فروغ انتہائی ضروری ہے، اقلیتوں کو صرف رواداری کا موضوع نہ بنایا جائے بلکہ ان کے تاریخی کردار کو بھی نمایاں کیا جائے۔
پاکستان کا پرچم اپنے اندر امید، اتحاد اور مساوات کی علامت رکھتا ہے۔ لیکن جب تک سفید پٹی صرف کپڑے تک محدود رہے گی اور قانون، رویے، اور پالیسی میں اس کی جھلک نہ ہو گی تب تک یہ علامت محض ایک دعویٰ رہے گا۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم اقلیتوں کو نہ صرف تحفظ دیں، بلکہ ان کے کردار کو تسلیم کرتے ہوئے ان کی شمولیت کو عملی جامہ پہنائیں۔ تبھی ہم واقعی سبز و سفید پرچم کے وارث کہلا سکیں گے۔ موجودہ حکومت کی جانب سے حالیہ قانون سازی قومی کمیشن برائے اقلیتی حقوق 2025 اور آئی سی ٹی چائلڈ میرج رسٹرین ایکٹ 2025 ، سے تاثر ملتا ہے کہ حکومت جسٹس تصدق حسین جیلانی کی 19 جون 2014 کی ججمٹ پر عمل درآمد کی جانب گامزن ہے، جوکہ پاکستان میں بسنے والی مذہبی اقلیتوں کے لئے ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ہے۔
Leave a Comment
Your email address will not be published. Required fields are marked with *