Author HumDaise View all posts
ساجد سراج ساجد
شعوری،تعلیمی،مالی اور سماجی تعمیر و ترقی کے خواہاں تھے بلکہ اس کے لئے انہوں نے عملی طور پر بھی اپنا کردار ادا کیا،نہایت دلیر شخص تھے اور اپنے خیالات و افکار کو مدلل انداز میں پیش کرنے کا ہنر بھی جانتے تھے اور اس پر انہیں ملکہ بھی حاصل تھا ۔
میری پہلی ملاقات 1995 میں ان سے سینٹ تھامس چرچ اسلام آباد میں “مسیحی گیتوں کے مقابلہ” کے ایک پروگرام میں ہوئی جہاں وہ پروگرام کے “مہمان خصوصی” کے طور شریک تھے اور میں اس مقابلے میں حصہ لینے والے کے طور پر شریک تھا، مایہ ناز موسیقار سموئیل گل صاحب پروگرام کے جج کی حیثیت سے تشریف فرما تھے۔
میرے لئے یہ نہایت خوشی اور شرف کی بات تھی کہ اس مقابلے میں “پہلا انعام” میرے حصہ میں آیا جو میں نے پروفیسر سلامت اختر صاحب کے ہاتھوں وصول کیا۔
اس کے بعد 2008 سے 2015 تک لاہور میں ان سے کئی ملاقاتیں ہوئیں اور انہیں اور ان کی سوچ اور خیالات و افکار کو اور زیادہ قریب سے جاننے کا موقع ملا اور اُنہیں ایک شفیق انسان اور بےباک رہنما کے طور پر دیکھا۔
پروفیسر سلامت اختر 18 دسمبر 1940 کو دھمتھل ضلع سیالکوٹ میں فوجی پس منظر کے ساتھ ایک معزز مسیحی گھرانے میں پیدا ہوے۔ ان کے دادا پہلی جنگ عظیم کے پنشن وصول کرنے والے تھے اور ان کے والد محترم کو بھی دوسری جنگ عظیم میں ان کی شاندار خدمات کے عوض پنشن ملی۔ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم لوئر مڈل سکول دھمتھل سے حاصل کی، میٹرک C.T.I ہائی سکول سیالکوٹ سے کیا، گورڈن کالج راولپنڈی سے آنرز کے ساتھ گریجویشن کیا، اور پوسٹ گریجویشن جو کہ M.A (انگریزی) اور M.A (تاریخ) پنجاب یونیورسٹی سے ہے۔
ان کی تعلیمی خدمات بھی بھرپوراور شاندارہیں:-
انہیں پورے 48 سال تک یعنی ایک طویل عرصے تک پاکستان کی خدمت کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ انہوں نے پاکستان کے نوجوانوں کو نہ صرف تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا بلکہ ان کی کردار سازی بھی کی۔ پروفیسر صاحب نے متعدد تعلیمی اداروں میں استاد کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں ،جیسے! رنگ محل کرسچن ہائی سکول لاہور، گورڈن کالج راولپنڈی، گورنمنٹ کالج جھنگ، سرسید ڈگری کالج گجرات، گورنمنٹ ڈگری کالج کہوٹہ اور ایف سی کالج (اے چارٹرڈ یونیورسٹی) لاہور۔
ان کی ادبی خدمات بھی قابل ذکرہیں:-
ہمارے خداوند اور نجات دہندہ یسوع مسیح نے انہیں قلم کی طاقت سے بھی نوازا ۔ 1997 میں پاکستان کی گولڈن جوبلی کے موقع پر کرسچن سٹڈی سنٹر راولپنڈی کی طرف سے شائع ہونے والی ان کی کتاب “تحریک پاکستان کے گمنام کردار” کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر سراہا گیا۔ ڈاکٹر اسلم سید، چیئرمین شعبہ تاریخ قائداعظم یونیورسٹی نے اسے ایم اے ہسٹری اور ایم ایس سی پاکستان اسٹڈیز کے لیے ایک مستند حوالہ کتاب قرار دیا، ان کی دو کتابیں جن کا عنوان ہے “لہو کی مشعلیں”، “تحریک پاکستان کا ایک سیاہ باب اور پاکستان کے وفادار مسیحی” زیر طبع ہیں۔ مختلف یونیورسٹیوں کے متعدد طلباء اسے ایم فل اور پی ایچ ڈی کے اپنے مقالوں میں حوالہ جات کے طور پر پیش کررہے ہیں۔ مختلف موضوعات پر ان کے مضامین نیشنل اور گلوبل پریس میں شائع ہوتے رہے ہیں۔
پروفیسر موصوف طویل علالت کے بعد دو نومبر 2022 کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔۔
Leave a Comment
Your email address will not be published. Required fields are marked with *