مدیراعلی: ندیم اجمل عدیم


محبت، نجات اور زندگی کی ابدی فتح

محبت، نجات اور زندگی کی ابدی فتح

  Author Editor Hum Daise View all posts

 

وقاص قمر بھٹی

تاریخ کے افق پر کچھ دن ایسے نمودار ہوتے ہیں جو وقت اور جگہ کی سرحدوں سے ماورا ہوکر دل و روح میں اتر جاتے ہیں۔ یہ دن صرف یادیں نہیں، پیغام لیے ہوتے ہیں؛ یہ صرف مذہبی رسومات نہیں بلکہ روحانی سچائیوں کے خزانے ہوتے ہیں۔ ایسٹر بھی ایسا ہی مقدس دن ہے — جب یسوع مسیح صلیب پر قربان ہونے کے تیسرے دن مردوں میں سے جی اُٹھے، موت پر فتح پائی، اور دنیا کو ایک لازوال پیغام دیا: کہ نجات، محبت اور ابدی زندگی ممکن ہے — صرف چند کے لیے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے۔یسوع مسیح ہی الفا اور اومیگا ہیں، ابتدا اور انتہا۔ ان کی مقدس ذات میں وہ الہی نور چھپا ہے جو صدیوں سے تاریکی کی گہرائیوں کو روشن کرتا آیا ہے۔ ان کا جی اُٹھنا صرف ایک معجزہ نہیں بلکہ ایک الہی وعدے کی تکمیل ہے — وہ وعدہ جو بنی نوع انسان کی نجات کے لیے کیا گیا، وہ وعدہ جو موت پر غالب آیا، اور وہ وعدہ جو بے بسی کو خدا کی قربت میں بدل دیتا ہے۔یسوع نے اپنی جان صرف اپنے ماننے والوں کے لیے نہیں دی بلکہ ہر قوم، ہر نسل، ہر رنگ، اور ہر مذہب کے لیے قربان کی۔ ان کی صلیب انسانیت کی صلیب تھی، اور ان کا جی اُٹھنا انسانیت کی فتح۔ انھوں نے دنیا کو دکھایا کہ سچی قربانی وہ ہے جو اپنی ذات کی حدوں کو توڑ کر دوسروں کے لیے بہا دی جائے۔ ان کا خون صرف صلیب پر نہیں گرا، وہ ہماری روح کی مٹی پر برسا، تاکہ ہم گناہوں کی زنجیروں سے آزاد ہو سکیں اور ابدی زندگی کی راہ پا سکیں۔انھوں نے فرمایا: “جو مجھ پر ایمان لائے گا وہ کبھی ہلاک نہ ہوگا بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے گا۔” یہ صرف ایک مذہبی بیان نہیں بلکہ ایک الہی وعدہ ہے — ایسا وعدہ جو خوف کو سکون میں، گناہ کو معافی میں، اور موت کو زندگی میں بدل دیتا ہے۔ یہ نجات ہر ایک کے لیے ہے، بغیر کسی تفریق، درجہ بندی یا دیوار کے۔ایسٹر ہمیں یاد دلاتا ہے کہ یسوع کی تعلیمات صرف الفاظ نہیں تھیں، بلکہ اعمال کا عکس تھیں۔ انھوں نے صرف محبت کی بات نہیں کی، بلکہ اپنی قربانی سے اسے جیا۔ انھوں نے صرف صبر کا درس نہیں دیا، بلکہ ہر کانٹے پر صبر کیا۔ انھوں نے دشمنوں کے لیے دعا کی، مظلوموں کو گلے لگایا، اور معافی کو سب سے بڑی نیکی کا درجہ دیا۔ ان کی ہر ایک ادا ہمیں سکھاتی ہے کہ خدا کی قربت صرف عبادت سے نہیں بلکہ انسانوں سے محبت کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔یسوع کا جی اُٹھنا ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ایمان کا راستہ ہمیشہ آسان نہیں ہوتا۔ یہ قربانی مانگتا ہے، تکلیف سے گزرتا ہے، اور اکثر تنہائی کی وادیوں سے ہو کر جاتا ہے۔ مگر ان کی زندگی اس بات کا ثبوت ہے کہ صبر کے بعد راحت ہے، اور صلیب کے بعد تاج۔ ان کا جی اُٹھنا ثابت کرتا ہے کہ جو اپنی زندگی خدا کے حوالے کرتے ہیں، وہ تباہی سے بچ جاتے ہیں، اور جو محبت سے جیتے ہیں، وہ ہمیشہ کے لیے جیتے ہیں۔جب پاکستان بھر کے مسیحی برادری کے افراد اس مقدس اتوار کو ایسٹر کے طور پر مناتے ہیں، ہر دعا میں شکر، یاد اور نیا عہد شامل ہوتا ہے۔ گرجا گھروں کی گھنٹیاں صرف عبادت کے لیے نہیں بجتیں، بلکہ انسانیت کو جگانے کے لیے بجتی ہیں۔ ہر دعا صرف نجات کی درخواست نہیں بلکہ دنیا کو بہتر بنانے کی خواہش ہوتی ہے۔ایسٹر کی اصل روح یہ ہے کہ ہم دوسروں کے لیے روشنی بن جائیں۔ یسوع کی مثال ہر مذہب کے ماننے والوں کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ کیونکہ تمام مذاہب — اسلام، عیسائیت، ہندومت، بدھ مت اور دیگر — محبت، امن، برداشت، بھائی چارے اور انسانیت کے احترام کا درس دیتے ہیں۔ مذہب کی اصل پہچان اس کے پیروکاروں کے عمل سے ہوتی ہے، نہ کہ صرف ان کی رسومات سے۔ایسٹر ہمیں جھنجھوڑتا ہے، جگاتا ہے، اور یقین سے بھر دیتا ہے کہ تاریکی کبھی ابدی نہیں ہوتی۔ اگر یسوع موت کی گہرائیوں سے جی اُٹھ سکتے ہیں، تو ہم بھی نفرت، مایوسی، ناانصافی اور ظلم کی تاریکی سے نکل کر محبت، امید، انصاف اور سچائی کی روشنی میں چل سکتے ہیں۔یہ دن ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ ہم اپنی زندگیوں میں وہ تبدیلی لائیں جو یسوع کے صلیبی خون نے ممکن بنائی۔ یہ ہم سے چاہتا ہے کہ ہم نجات کے پیغام کو صرف یاد نہ رکھیں بلکہ اسے جئیں، اپنائیں اور دوسروں تک پہنچائیں — تاکہ یہ روشنی ہر دل تک پہنچے۔ایسٹر ہمیں یاد دلاتا ہے کہ آخرکار فتح زندگی کی ہوتی ہے — وہ زندگی جو محبت سے جنم لیتی ہے، قربانی سے پروان چڑھتی ہے، اور خدا کے وعدے میں محفوظ رہتی ہے۔

Author

Editor Hum Daise
ADMINISTRATOR
PROFILE

Posts Carousel

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked with *

Latest Posts

Top Authors

Most Commented

Featured Videos

Author