مدیراعلی: ندیم اجمل عدیم


گلگت بلتستان میں بڑھتی چائلڈ لیبر، ضلع شگر پہلے نمبر پر

گلگت بلتستان میں بڑھتی چائلڈ لیبر، ضلع شگر پہلے نمبر پر

    سرور سکندر Author Hum Daise View all posts

 

 

سرور سکندر

گلگت بلتستان کے ضلع شگر میں بچوں سے مزدوری لینا ایک سنگین مسئلہ بنتا جا رہا ہے جہاں سبز وادیوں اور زرعی زمینوں کا حسن ہے وہیں ان کھیتوں میں کم عمر بچے اپنے ننھے ہاتھوں سے بڑی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں یونیسف اور محکمہ پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ کی رپورٹ کے مطابق گلگت بلتستان میں چائلڈ لیبر کی سب سے زیادہ شرح شگر میں ہے جہاں 27.8 فیصد بچے کام کرنے پر مجبور ہیں حیران کن بات یہ ہے کہ ضلع دیامر جہاں شرح خواندگی کم اور اسکولوں کی تعداد نہایت محدود ہے، وہاں چائلڈ لیبر کی شرح صرف 5.8 فیصد ہے جبکہ شگر جیسے نسبتاً تعلیم یافتہ ضلع میں یہ شرح کہیں زیادہ ہے
یہ حقیقت ہمیں مجبور کرتی ہے کہ ہم اس مسئلے کے پس منظر کو سمجھیں شگر کے دور دراز دیہاتوں میں رہنے والے خاندانوں کی روزی روٹی مکمل طور پر کھیتی باڑی مال مویشی اور موسمی ہجرت پر منحصر ہے غلام مہدی جیسے کسان کہتے ہیں کہ یہاں روایت ہے کہ گھر کے سبھی افراد مل کر کام کرتے ہیں۔ بچےخواتین مرد سب اپنے حصے کا بوجھ اٹھاتے ہیں بعض بچے اسکول بھی جاتے ہیں اور کھیتوں میں بھی کام کرتے ہیں جبکہ بعض تعلیم ادھوری چھوڑ کر مکمل طور پر محنت مزدوری میں لگ جاتے ہیں
ہوٹلوں اور دکانوں میں کام کرنے والے بچوں کی کہانیاں بھی کچھ مختلف نہیں برالدو سے تعلق رکھنے والا 14 سالہ اسحاق اور باشا کا 15 سالہ ثقلین دونوں غربت کے مارے اپنے خوابوں کو چھوڑ کر کام کی طرف گئے ہیں اسحاق نے دوسری جماعت کے بعد تعلیم چھوڑ دی اور ہوٹلوں میں کام شروع کر دیا ثقلین نے آٹھویں جماعت کے بعد تعلیم کو خیر باد کہا اور اب ہوٹل میں برتن دھوتا ہے وہ باورچی بننے کی خواہش رکھتا ہے مگر حالات اجازت نہیں دیتے۔
ادھر محکمہ تعلیم کی رپورٹ بتاتی ہے کہ بلتستان ڈویژن میں 29 ہزار سے زائد بچے اسکولوں سے باہر ہیں صرف شگر میں 5,227 بچے اسکول نہیں جاتے جو کہ بچوں کی کل تعداد کا 24 فیصد ہیں ہر سال محکمہ تعلیم داخلہ مہم چلاتا ہے بینر لگتے ہیں ریلیاں نکالی جاتی ہیں، مگر زمینی حقیقت تبدیل نہیں ہو رہی۔ ہوم ڈیپارٹمنٹ کا گزشتہ سال جاری کردہ سرکلر جس میں کہا گیا تھا کہ اسکول کے وقت باہر نظر آنے والے بچوں کے والدین کو گرفتار کیا جائے گا ایک کاغذی اعلان ثابت ہوا جس پر کوئی عمل درآمد نہ ہو سکا۔
سابق رکن اسمبلی عمران ندیم کا کہنا ہے کہ شگر میں چائلڈ لیبر کے بڑھنے کی ایک بڑی وجہ یہاں کی زرعی معیشت کان کنی اور موسمی ہجرت ہے لوگ اپنے بچوں کو کھیتوں اور کانوں پر ساتھ لے جاتے ہیں کیونکہ وہ مزدور نہیں رکھ سکتے اور بچے ہی ان کے ہاتھ بٹاتے ہیں ان کے مطابق شگر کے پہاڑوں میں معدنیات بھی زیادہ ہیں اور لوگ ان سے روزی کماتے ہیں، بچے بھی اسی مشقت میں جھونک دیے جاتے ہیں۔
اب وقت آ گیا ہے کہ اس سنگین مسئلے کا سنجیدگی سے نوٹس لیا جائے۔ یونیسف اور پلاننگ ڈیپارٹمنٹ نے “پوسٹ چائلڈ لیبر سروے” شروع کیا ہے جو ایک مثبت قدم ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ بچوں کو تعلیم اور سہارا دینا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ جب تک والدین کے معاشی حالات بہتر نہیں ہوں گے اور بچوں کو اسکول جانے کا عملی موقع نہیں دیا جائے گا، شگر اور اس جیسے دوسرے علاقوں میں چائلڈ لیبر کا خاتمہ ممکن نہیں

Author

Hum Daise
ADMINISTRATOR
PROFILE

Posts Carousel

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked with *

Latest Posts

Top Authors

Most Commented

Featured Videos

Author