Author Editor Hum Daise View all posts
نور العین
پاکستان کی معیشت کا پہیہ جن ہاتھوں سے چلتا ہے وہ ہاتھ مزدور کے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو فیکٹریوں کی چمنیوں سے لے کر کھیتوں کی منڈیوں تک، سڑکوں کی تعمیر سے لے کر دفتری امور تک، ہر جگہ اپنی محنت سے معیشت کو فعال رکھتے ہیں۔ بدقسمتی سے، یہ مزدور طبقہ سب سے زیادہ محرومی، استحصال اور نظراندازی کا شکار ہے۔ پاکستان میں لاکھوں مزدور روزانہ اپنی خدمات پیش کرتے ہیں، لیکن ان میں سے زیادہ تر کو مناسب تنخواہ، تحفظ، سوشل سیکیورٹی، اور بہتر کام کے حالات نہیں ملتے۔ مزدور کی زندگی ایک مسلسل جدوجہد ہے، جو غربت، مہنگائی، استحصال اور حکومتی بے حسی سے بھری ہوئی ہے۔
یکم مئی کو دنیا بھر میں مزدوروں کے حقوق کی اہمیت کو تسلیم کرنے کے لیے “یومِ مزدور” منایا جاتا ہے، مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ اس دن ملک کے تمام سرکاری اور غیر سرکاری دفاتر کے اعلیٰ افسران چھٹی پر ہوتے ہیں، جبکہ اصل مزدور طبقہ، جن کے لیے یہ دن مخصوص ہے، فیکٹریوں، ہوٹلوں،بھٹوں ، کھیتوں اور تعمیراتی مقامات پر معمول کے مطابق کام کر رہا ہوتا ہے۔ یہ صورت حال مزدوروں کی حالتٍ زار اور ہمارے سماجی تضادات کی عکاسی کرتی ہے۔
پاکستان میں مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کئی قوانین موجود ہیں، جن کا مقصد مزدوروں کو مناسب اجرت، تحفظ، فلاح و بہبود اور سوشل سیکیورٹی فراہم کرنا ہے۔ تاہم، حقیقت یہ ہے کہ ان قوانین کا نفاذ صرف کاغذی سطح پر ہوتا ہے۔ زیادہ تر نجی کمپنیاں ان قوانین کی پاسداری نہیں کرتیں، جبکہ متعلقہ ادارے یا تو خاموش رہتے ہیں یا بدعنوانی میں ملوث ہوتے ہیں۔ پاکستانی مزدوروں کے مسائل کی شدت بہت زیادہ ہے۔ اگرچہ حکومت ہر سال کم از کم اجرت کا تعین کرتی ہے، لیکن اکثر ادارے اس پر عمل نہیں کرتے۔ بہت سے مزدور بغیر کسی تحریری معاہدے کے کام کرتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کا استحصال آسان ہو جاتا ہے۔ کام کے دوران حادثات کی صورت میں ان کے پاس نہ تو طبی سہولیات ہوتی ہیں، نہ انشورنس، اور نہ ہی کوئی معاوضہ۔
خواتین مزدوروں کو مزید مختلف مسائل کا سامناہوتاہے، جن میں جنسی ہراسانی، تنخواہوں میں فرق اور زچگی کی چھٹیوں کی عدم دستیابی شامل ہے۔چائلڈ لیبر بھی ایک سنگین مسئلہ ہے، جہاں کم عمر بچے خطرناک حالات میں کام کرنے پر مجبور ہیں۔ پاکستان میں مزدوروں کی نمائندگی کے لیے مختلف یونینز سرگرم ہیں، جیسے پاکستان ورکرز فیڈریشن (PWF)، آل پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن (APTUF)، اور نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن (NTUF)۔ ماضی میں یہ یونینز مزدوروں کے حقوق کے لیے بھر پور جدوجہد کرتی رہی ہیں، لیکن اب ان کی طاقت میں کمی واقع ہو چکی ہے۔ اس کی وجوہات میں ریاستی مداخلت، سیاسی وابستگیاں، اندرونی اختلافات اور لیبر پالیسیز پر عملدرآمد کی کمی شامل ہے ۔ یونین کے رہنماؤں کو اکثر دباؤ، گرفتاری یا نوکری سے برطرفی جیسے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
حکومت پاکستان نے وقتاً فوقتاً مزدوروں کے لیے پالیسیاں بنائی ہیں، جیسے لیبر پالیسی 2010، جس میں مزدوروں کے حقوق، یونین سازی کی آزادی، سماجی تحفظ اور خواتین کے لیے سہولیات کا وعدہ کیا گیا ہے۔ لیکن ان پالیسیوں کو عملی شکل دینے کے لیے کوئی مؤثر نظام موجود نہیں۔
پاکستان میں مزدور تحریکیں بھی مختلف اوقات میں ابھرتی رہی ہیں، لیکن موجودہ دور میں ان تحریکوں کو میڈیا میں مناسب جگہ نہیں ملتی، اور انہیں قومی سلامتی یا امن عامہ کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں مزدور طبقہ اپنے مطالبات کو مؤثر طریقے سے پیش نہیں کر پاتا۔ مزدوروں کی حالت کو بہتر بنانے کے لیے کئی اقدامات ضروری ہیں۔ سب سے پہلے، لیبر قوانین کا مؤثر نفاذ اور ان کی خلاف ورزی پر سخت سزائیں دی جائیں۔ دوسرا، ہر مزدور کو قومی سطح پر رجسٹر کیا جائے تاکہ انہیں سوشل سیکیورٹی اور صحت کی سہولیات فراہم کی جا سکیں۔ تیسرا، یونین سازی کے حق کو مکمل آزادی دی جائے تاکہ مزدور اجتماعی طاقت کے ذریعے اپنے حقوق کا تحفظ کر سکیں۔ چوتھا، کم از کم اجرت کا تعین مہنگائی کے تناسب سے کیا جائے اور اس پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے۔ پانچواں، خواتین مزدوروں کے لیے علیحدہ تحفظاتی پالیسیز بنائی جائیں، اور ان کی شکایات کے لیے علیحدہ سیل قائم کیا جائے۔
مزدور پاکستان کی بنیاد ہیں۔ جب وہ خوشحال، محفوظ اور باوقار زندگی گزاریں گے، تب ہی ملک ترقی کرے گا۔ اگر ہم واقعی پاکستان کی خوشحالی چاہتے ہیں تو ہمیں مزدور کی عزت، حقوق اور فلاح و بہبود کو اپنی ترجیحات میں شامل کرنا ہوگا۔
Leave a Comment
Your email address will not be published. Required fields are marked with *