Author Editor Hum Daise View all posts
خالد شہزاد
اسلامی جمہوریہ پاکستان کا قیام ایک ایسی ریاست کے تصور پر ہوا تھا جہاں تمام شہریوں کو یکساں حقوق اور مذہبی آزادی حاصل ہو۔ تاہم، 75 سال گزرنے کے باوجود، اقلیتی برادریاں آج بھی سیاستی اور سماجی محرومیوں کا شکار ہیں۔ پاکستان کا شمار ان چند ممالک میں ہوتا ہے جہاں اقلیتوں کے منتخب نمائندوں کو براہِ راست ووٹ کے بجائے پارٹیوں کی مرضی سے نامزد کیا جاتا ہے۔ یہ نظام نہ صرف جمہوریت کے بنیادی اصولوں کے منافی ہے بلکہ اقلیتوں کو سیاسی عمل میں حقیقی شراکت داری سے بھی محروم رکھتا ہے۔ پاکستان میں اقلیتوں کی نمائندگی کے نظام، اس کے تضادات، اور سیاسی پارٹیوں کے دوہرے معیار :
آئینی و قانونی فریم ورک: وعدے اور حقیت
پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 20 (مذہبی آزادی) اور آرٹیکل 25 (مساوات) کے تحت تمام شہریوں کو یکساں حقوق دیے گئے ہیں۔ اسی طرح، قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستیں (آرٹیکل 51 اور 106) بھی مختص ہیں۔ تاہم، یہ نشستیں براہِ راست انتخاب کے بجائے سیاسی پارٹیوں کی جانب سے نامزدگی پر مشتمل ہوتی ہیں۔ 2002ء میں جنرل مشرف کے دور میں علیحدہ الیکٹورٹ سسٹم ختم کرکے مشترکہ الیکٹورٹ متعارف کرایا گیا، جس کے تحت اقلیتی نشستوں کا تعین پارٹیوں کے عام انتخابات میں جیتے ہوئے نشستوں کے تناسب سے ہوتا ہے۔ نتیجتاً، اقلیتی نمائندے اپنی برادری کے ووٹوں سے نہیں، بلکہ پارٹی لیڈرشپ کی مرضی سے منتخب ہوتے ہیں۔ غیر جمہوری انتخاب
اس وقت قومی اسمبلی میں اقلیتوں کے لیے 10 مخصوص نشستیں ہیں، جن پر نامزدگی کا اختیار سیاسی پارٹیوں کے پاس ہے۔ مثال کے طور پر، اگر کوئی پارٹی 100 عام نشستیں جیتتی ہے تو وہ اپنی طرف سے اقلیتی نمائندے نامزد کرتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک مسیحی یا ہندو نمائندہ اپنی برادری کے مسائل کو اٹھانے کے بجائے پارٹی کے ایجنڈے کو ترجیح دیتا ہے، کیونکہ اس کی سیاسی بقا پارٹی کی مرہونِ منت ہوتی ہے۔ یہ نظام اقلیتوں کو اپنے حقیقی نمائندے چننے کے حق سے محروم کرتا ہے، جس کی وجہ سے ان کے مسائل اسمبلی فلور تک مؤثر طریقے سے نہیں پہنچ پاتے۔
: سیاسی پارٹیوں کا دوہرا روپ: ووٹ کی سیاست
بڑی سیاسی پارٹیاں جیسے مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، تحریکِ انصاف، ایم کیو ایم، اور مذہبی جماعتیں (جماعتِ اسلامی، جمعیت علماء اسلام) انتخابات کے دوران اقلیتی ووٹ بانٹنے کے لیے ان کی مذہبی و ثقافتی تقریبات میں شرکت کرتی ہیں، مگر اسمبلیوں میں ان کے نمائندوں کو قومی امور پر بحث میں شامل نہیں کیا جاتا۔ مثال کے طور پر، بلاسفمی کے قوانین، فرقہ وارانہ تشدد، یا پھر شہریت کے مسائل پر اقلیتی اراکین کی رائے کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف، ضمنی انتخابات یا مقامی سطح کے ووٹوں کی ضرورت ہو تو یہی پارٹیاں اقلیتی نمائندوں کو “جمہوریت کی بحالی” کے نعرے لگواتے ہوئے پیش کرتی ہیں۔
:تضاد کی کہانی: جمہوریت کی آڑ میں استحصال
اس صورتحال کا سب سے بڑا تضاد یہ ہے کہ جن اقلیتی نمائندوں کو جمہوری عمل کا چہرہ بنایا جاتا ہے، ان کی خود کی نمائندگی غیر جمہوری طریقے سے ہوتی ہے۔ یہ نمائندے نہ تو اپنی برادری کے مسائل حل کرواسکتے ہیں اور نہ ہی انہیں قومی پالیسی سازی میں کوئی کردار دیا جاتا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ، معیشت، یا تعلیمی اصلاحات جیسے اہم معاملات پر ان کی رائے کو غیر اہم سمجھا جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اقلیتوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے قانون سازی کے بجائے صرف علامتی نوعیت کے ہوتے ہیں۔
بین الاقوامی موازنہ: کہاں ہے پاکستان؟
بھارت میں دلت اور قبائلی برادریوں کے لیے مخصوص نشستیں براہِ راست ووٹنگ کے ذریعے منتخب ہوتی ہیں۔ لبنان جیسے ممالک میں مذہبی گروہوں کو آئینی سطح پر نمائندگی دی جاتی ہے۔ اس کے برعکس، پاکستان کا نظام اقلیتوں کو سیاسی طور پر کمزور رکھتا ہے۔ بین الاقوامی رپورٹس کے مطابق، پاکستان میں اقلیتوں کے خلاف امتیازی قوانین اور تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے، جس کی ایک بڑی وجہ ان کی سیاسی بے بسی ہے۔
اصلاح کی راہیں: کیا کیا جا سکتا ہے؟
براہِ راست انتخابات: اقلیتی نشستوں پر امیدواروں کا انتخاب براہِ راست ووٹنگ کے ذریعے ہونا چاہیے، تاکہ نمائندے اپنی برادری کے جائز مطالبے اٹھا سکیں۔2 پالیسی سازی میں شمولیت: اقلیتی نمائندوں کو قومی سلامتی، تعلیم، اور انسانی حقوق کی کمیٹیوں میں شامل کیا جائے۔ 3. پارٹیوں کا رویہ تبدیل کریں: سیاسی جماعتیں اپنے اندر اقلیتی رہنماؤں کو فروغ دیں اور انہیں ٹکٹ دے کر عام نشستوں پر انتخاب لڑائیں۔ 4. آگاہی مہم: عوامی سطح پر اقلیتوں کے حقوق کے لیے مہم چلا کر ان کے مسائل کو مرکزی دھارے میں لایا جائے۔
پاکستان میں اقلیتوں کی نمائندگی کا موجودہ نظام نہ صرف غیر جمہوری ہے بلکہ ملک کی سالمیت کے لیے بھی خطرہ ہے۔ جب تک اقلیتوں کو حقیقی سیاسی اختیارات نہیں دیے جاتے، تب تک ان کے خلاف امتیاز اور تشدد کا سلسلہ جاری رہے گا۔ سیاسی پارٹیوں کو چاہیے کہ وہ جمہوریت کے نام پر کھیلے جانے والے اس دوہرے کھیل کو ختم کریں اور اقلیتوں کو ان کا آئینی حق دلانے میں پیش پیش ہوں۔ صرف اس صورت میں ہی پاکستان کو حقیقی معنوں میں ایک “جمہوری” ریاست کہلانے کا حق حاصل ہوگا۔
پاکستان میں کرسچین اراکین پارلیمنٹ کے ساتھ امتیازی
پس منظر اور واقعہ کا خلاصہ
پاکستان میں کرسچین برادری کے ساتھ امتیازی سلوک کی ایک تازہ مثال کے طور پر، پوپ لیو کی مذہبی رسومات کے موقع پر صوبہ پنجاب کے سکھ برادری سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزیر اور سندھ کے ہندو رہنما کھیل داس کوہستانی کو یوسف رضا گیلانی کی سربراہی میں وفد کے ساتھ روم بھیجا گیا۔ اس اقدام میں کرسچین اراکین پارلیمنٹ کو نظرانداز کیا گیا، جس نے ملک بھر کی کرسچین کمیونٹی میں شدید تحفظات کو جنم دیا ہے۔ یہ واقعہ پاکستان میں اقلیتوں کی نمائندگی کے نظام کے تضادات کو واضح کرتا ہے۔
اقلیتوں کی نمائندگی کے نظام کی خامیاں
پاکستان کی قومی اسمبلی میں اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستیں براہِ راست انتخابات کے بجائے سیاسی پارٹیوں کی جانب سے نامزد کی جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر، 16ویں قومی اسمبلی میں 60 نشستیں خواتین اور اقلیتوں کے لیے مختص ہیں، لیکن ان کا تعین پارٹیوں کے ووٹ شیئر کے تناسب سے ہوتا ہے۔ اس نظام کے تحت کرسچین نمائندے اپنی برادری کے بجائے پارٹی لیڈرشپ کے وفادار ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ اپنے مسائل مؤثر طریقے سے نہیں اٹھا پاتے۔
بین الاقوامی تقریبات میں نمائندگی کا فقدان
حالیہ واقعہ میں کرسچین اراکین کو روم بھیجنے سے متعلق حکومتی فیصلہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ اقلیتوں کی نمائندگی محض علامتی ہے۔ سکھ اور ہندو رہنماؤں کو ترجیح دینے کا عمل کرسچین کمیونٹی کے ساتھ امتیاز کو ظاہر کرتا ہے، جو پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 20 (مذہبی آزادی) اور آرٹیکل 25 (مساوات) کے اصولوں کے منافی ہے۔
: سیاسی اور سماجی اثرات کرسچین برادری کے اندر یہ
احساس بڑھ رہا ہے کہ ان کی سیاسی نمائندگی محض “ٹوکن ازم” تک محدود ہے۔ اس کے نتیجے میں ان کے خلاف امتیازی قوانین اور تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔
-بین الاقوامی تنقید: پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے بین الاقوامی رپورٹس میں مسلسل تنقید کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر، اقلیتی نمائندوں کی غیر جمہوری انتخاب کی وجہ سے ملک کی سالمیت کو خطرات لاحق ہیں
اصلاحات کی تجاویز
1.براہِ راست انتخابات: اقلیتی نشستوں پر امیدواروں کا انتخاب براہِ راست ووٹنگ کے ذریعے ہونا چاہیے، تاکہ نمائندے اپنی برادری کے مسائل کو بلا خوف اٹھا سکیں۔
پالیسی سازی میں شمولیت: اقلیتی ارکان کو قومی سلامتی، انسانی حقوق، اور تعلیم جیسی کمیٹیوں میں شامل کیا جائے۔
آگاہی مہم: حکومت کو چاہیے کہ وہ اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے عوامی مہم چلائے اور ان کے مسائل کو مرکزی دھارے میں لائے۔
پاکستان میں اقلیتوں کی نمائندگی کا موجودہ نظام نہ صرف غیر جمہوری ہے بلکہ ملک کی اجتماعی طاقت کو بھی کمزور کرتا ہے۔ کرسچین برادری کے ساتھ حالیہ امتیازی سلوک اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ سیاسی پارٹیاں اقلیتوں کے حقوق کو محض ووٹ بینک تک محدود سمجھتی ہیں۔ اس صورتحال کو بدلنے کے لیے آئینی اصلاحات، براہِ راست انتخابات، اور اقلیتوں کی شمولیت کو یقینی بنانا ناگزیر ہے۔ صرف اس صورت میں ہی پاکستان ایک حقیقی جمہوری ریاست کہلانے کا حق دار ہوگا
Leave a Comment
Your email address will not be published. Required fields are marked with *