نور العین Authors Hum Daise View all posts Editor Hum Daise View all posts
نور العین
مئی 2025 کی فیصلہ کن پاک بھارت کشیدگی نے برصغیر کی تاریخ میں ایک نیا باب رقم کیا۔ ایک طرف بھارتی جارحیت، بے بنیاد دعوے اور طاقت کے زعم میں ڈوبا ہوا سیاسی ایجنڈا تھا، جبکہ دوسری طرف پاکستان کا پُرعزم دفاع، دانشمندانہ عسکری حکمت عملی اور ایک متحد قوم کا جذبہ—یہ سب کچھ اس کشیدگی کو محض ایک معرکہ نہیں بلکہ ایک نظریاتی جنگ میں تبدیل کر گیا۔بھارت نے اپنے داخلی سیاسی بحران اور انتخابی ناکامیوں سے توجہ ہٹانے کے لیے روایتی حربہ اپنایا: پاکستان پر الزام تراشی اور سرحدی کشیدگی کو ہوا دینا۔ لیکن اس بار، صورتحال مختلف تھی۔ پاکستان نے نہ صرف جارحیت کا بھرپور جواب دیا بلکہ عالمی سطح پر اپنا مؤقف مؤثر انداز میں پیش کیا۔ دشمن کی سرجیکل اسٹرائیک کی کہانی، محض پروپیگنڈا نکلی، جبکہ پاکستانی افواج کی جوابی کارروائیاں دشمن کے مورچوں تک گونجتی رہیں۔پاک فضائیہ نے جس مہارت سے دشمن کے فضائی حملوں کو ناکام بنایا، وہ تاریخ کا سنہری باب ہے۔ سب سے بڑھ کر، قوم نے متحد ہو کر اپنے دفاعی اداروں کے ساتھ کھڑے ہو کر وہ جذبہ دکھایا جو شاید 1965 یا 1999 کی جنگ کے بعد پہلی بار اس شدت سے نظر آیا۔بھارت کی جانب سے پاکستان کے عوام، رہائشی علاقوں اور مساجد پر حملے کیے گئے جس کے نتیجے میں درجنوں شہری اور معصوم بچے شہید ہوئے۔ جوابی کارروائی میں پاکستان کی جانب سے بھارتی عسکری اڈوں اور بیسز کو ٹارگٹ کیا گیا آپریشن کے دوران دشمن کے متعدد اہم تنصیبات اور اسٹریٹیجک اہداف کو کامیابی سے نشانہ بنایا گیا۔آپریشن بُنْيَانٌ مَّرْصُوْص (آہنی دیوار) کے تحت پاکستان ائیر فورس کے جے ایف 17 تھنڈر کے ہائپر سونک میزائلوں نے آدم پور میں نہ صرف بھارت کا S-400 سسٹم تباہ کیا بلکہ لائن آف کنٹرول پر بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیتے ہوئے بھارتی افواج کی متعدد چیک پوسٹیں تباہ کر دیں جن میں کیلر سیکٹر میں ڈوبہ مور پوسٹ، بٹالین ہیڈکوارٹر سوجی، اور پیر کانتھی سیکٹر میں جبار و ترکھیاں کمپلیکس شامل ہے پاکستان کی مؤثر جوابی کارروائیوں میں اس سے قبل بھی کئی بھارتی چیک پوسٹس تباہ کی گئیں جیسا کہ دہرنگیاری میں بھارتی آرٹلری گن پوزیشن ،نگروٹا میں واقع براہموس اسٹوریج سائٹ کو بھی نشانہ بنا کر تباہ کیا گیا تھا۔پاکستان نے اپنی دفاعی صلاحیت کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہوئے دشمن کو یہ واضح پیغام دیا ہے کہ کسی بھی جارحیت کا سخت جواب دیا جائے گا۔ پاکستان کی فضائی کارروائی، جس میں بھارتی طیارے تباہ کیے گئے، نے بھارت کی عسکری برتری کے دعووں کی حقیقت کو بے نقاب کر دیا۔ باخبر سفارتی ذرائع کے مطابق، اسی دباؤ کے تحت بھارتی حکومت نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے پس پردہ رابطہ کر کے جنگ بندی کے لیے کردار ادا کرنے کی درخواست کی۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کے اس بیان نے بھی یہ واضح کیا،”پاکستان نے سیزفائر کی کوئی درخواست نہیں کی، جنگ بندی بھارت کی خواہش تھی” (ڈی جی آئی ایس پی آر)یہ درخواست دراصل بھارت کے خوف اور بے بسی کی عکاسی کرتی ہے، جو اسے پاکستان کی جوابی کارروائی کے بعد محسوس ہوئی، اور جس نے اسے سفارتی محاذ پر پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔اب جبکہ جنگ کے بادل چھٹ چکے ہیں اور توپوں کی گونج ختم ہو چکی ہے، یہ وقت ہے کہ ہم غور کریں: آگے کا راستہ کیا ہے؟ امن، ترقی اور خودمختاری کی جانب بڑھیں گے؟ اس کشیدگی نے ہمیں محض میدان میں فتح نہیں دی، بلکہ اپنے داخلی مسائل پر توجہ دینے کا ایک موقع بھی فراہم کیا ہے، اپنی معیشت کو مستحکم کرنے، تعلیم، صحت، تحقیق اور سماجی انصاف کو ترجیح دینے کا۔ اگر ہم نے اس موقع کو کھو دیا، تو ممکن ہے کہ ہم دوبارہ ایسی ہی تباہی کے قریب پہنچ جائیں۔بین الاقوامی برادری کو بھی یہ سمجھنا ضروری ہے کہ جنوبی ایشیا میں امن کا قیام طاقت کے توازن یا ہتھیاروں کی دوڑ سے نہیں بلکہ انصاف، مکالمے اور باہمی احترام پر مبنی تعلقات کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اقوام متحدہ اور دیگر اداروں کی جانب سے بھارت کی یکطرفہ جارحیت پر خاموشی ایک افسوسناک عمل ہے۔ پاکستان نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ ایک امن پسند ملک ہے، لیکن دفاع کے لیے ہم کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ ہمارے نوجوان، سائنسدان، سپاہی اور رہنما سب نے دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ پاکستان ایک ذمہ دار ایٹمی طاقت ہے، جو امن کی خواہش رکھتا ہے لیکن کمزور نہیں،دشمن کو منہ توڑ جواب دینے کی طاقت رکھتا ہے۔پاکستان کی عسکری قیادت نے ایک بار پھر یہ واضح کر دیا ہے کہ قوم کی سالمیت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا، عالمی برادری نے بھی پاکستان کے دفاعی حق کو تسلیم کیا۔
اب پاکستان کے لیے ترقی، تحقیق اور خوشحالی کی نئی راہیں متعین کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ دشمنی کی سیاست کافی ہو چکی، اب تعمیر کا وقت ہے۔ یہ جنگ ہماری کامیابی پر ختم ہوئی، لیکن حقیقی کامیابی تب ہوگی جب ہم ایک مضبوط، خوشحال، تعلیم یافتہ اور خوددار قوم بنے رہیں۔ اب پاکستان اور بھارت دونوں کو چاہیے کہ سنجیدگی سے خطے میں امن، ترقی اور استحکام کے لیے اقدامات کریں۔ اس کشیدگی نے دونوں ممالک کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ انسانی جانوں کے ضیاع اور معاشی دباؤ نے یہ واضح کر دیا ہے کہ حقیقی فتح وہی ہے جو میدانِ جنگ کے بعد مذاکرات کی میز پر حاصل کی جائے
1 comment
1 Comment
Muhammad zahid
May 12, 2025, 3:49 pmExcellent Article keep it up
REPLY