Author Editor Hum Daise View all posts
نورالعین
سوشل میڈیا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس نے ایک عام فرد کے لئے بھی اپنے جذبات و خیالات کا اظہار انتہائی آسان کر دیا ہے۔ خواتین خاص طور پر اپنے فن ، اپنی گفتگو یا ادکارانہ صلاحیتوں کے اظہار میں سب سے آگے ہیں ۔ نہ صرف کچھ صلاحتیوں کا اظہار ، بیشتر خواتین اپنی روٹین کی لائف بھی سوشل میڈیا خاص طور پر ٹک ٹاک پر شئیر کرتی نظر آتی ہیں ۔ کہیں کوئی ڈاکٹر اپنے مریض کے ساتھ گفتگو کی وڈیو لگا رہی ہے کہیں کوئی گھریلو خاتون اپنے کچن میں کھانا پکاتے ہوئے باتیں کرتی نظر آتی ہیں تو کہیں نوجوان لڑکیاں کسی تفریح گاہ میں ، کسی پہاڑی مقام پر یا کوئی فنکشن اٹینڈ کرتے ہوئے اپنی وڈیو پوسٹ کر رہی ہیں ۔ ان سب چیزوں میں کوئی قباحت نہیں اگر اخلاقی حدو و قیود کا خیال رکھا جائے ۔ٹک ٹاک کی بات کریں تو یہ آج کے دور میں تیز رفتار شہرت حاصل کرنے کااولین پلیٹ فارم بن چکا ہے ۔ لیکن بسا اوقات یہی پلیٹ فارم نوجوانؤں خاص طور پر نوجوان لڑکیوں کے لئے بہت خطرناک بھی ثابت ہوا ہے ۔ کہ معاشرے میں کچھ بھیڑئیے انہیں اپنا شکار سمجھ لیتے ہیں ۔ پاکستان میں پچھلے چند سالوں میں کئی خواتین ٹک ٹاکرز کو صرف اس وجہ سے قتل کر دیا گیا کہ وہ آن لائن نمایاں تھیں، مشہور ہو رہی تھیں۔ لوگوں نے اُن سے دوستی کرنا چاہی یا کسی بات پر اختلاف ہوا اور وہ مار دی گئیں ۔ کچھ خواتین نے معاشرتی روایات سے ہٹ کر کچھ اظہار کیا ، کچھ وڈیوز لگائی۔ کسی کو پسند نہیں آئی اور انہیں مار دیا گیا ۔ یعنی لوگ خود ہی مدعی بن گئے ، خود ہی منصف بنے فیصلہ سُنایا اور پھر جلاد کا کریکٹر بھی خود ہی کر ڈالا ۔ یہ واقعات معاشرے کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتے ہیں اور یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ سوشل میڈیا جیسے جدید ذرائع خواتین کے لیے زندگی کے خطرے میں بدل چکے ہیں۔پاکستان میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جہاں سوشل میڈیا پر سرگرم خواتین کو صرف ان کی مقبولیت یا طرز زندگی کی بنا پر نشانہ بنایا گیا۔ لوگوں نے ان خواتین کو اپنی پراپرٹی سمجھ لیا اور سوچ لیا کہ وہ ویسا ہی کریں گی جیسا یہ لوگ چاہتے ہیں ۔ پچھلے دنوں 17 سالہ معصوم ٹک ٹاکر ثناءیوسف کو اسلام آبادصرف اس وجہ سے قتل کر دیا گیا کہ وہ ٹک ٹاک پر بہت مشہور ہو چُکی تھی ۔ ہزاروں لوگ اس سے بات کرنے کے خواہاں تھے ۔ ہمارے معاشرے میں بھیڑیوں کے غول بھی موجود ہیں ۔ جو ثناء جیسی لڑکیوں کو اپنے گمان میں آسان شکار سمجھ لیتے ہیں ۔ ثنا ءکا خواب ڈاکٹر بننے کا تھا، لیکن دوستی کے خواہاں عمر حیات عرف کاکا نے تو یہ سوچ لیا تھا کہ ثناء جیسے اس کی ملکیت ہو اور جو پیش کش دوستی کی اس نے کی ہے ثناء کو وہ ماننا پڑے گا ۔ مبینہ طور پر اس لڑکے کی اسی خود پسند ذہنیت نے ثناء کے خواب، اس کی زندگی اور اس کی معصومیت سب کچھ چھین لیا۔مئی 2025 میں بھی معروف ٹک ٹاکر اقراء عرف تھل کی شہزادی کواس کے کزن نے غیرت کے نام پر قتل کیا ۔جو اسےٹک ٹاک پر وڈیو بنانے سے منع کرتا تھا اور طیش میں آکر اس نے یہ مقروہ قدم اٹھایا۔ دیکھا جائے تو ہمارے معاشرے میں طعنہ زنی اس قدر عا م ہے ۔ کہ لوگ اسے انٹرٹینمنٹ کے طور پر دیکھتے ہیں ۔ اور کسی کی کوئی خامی بس نظر آئے ۔ اُسے ذلیل کرنا معاشرے نے اپنا حق سمجھ لیا ہے ۔ یہی طعنہ زنی کئی جانوں کے ضیاع کا باعث بنتی ہے ۔ اور اس ٹک ٹاکر کے قتل میں صرف اُس کا کزن نہیں ۔ اُسے طعنہ دینے والے سب لوگ شامل ہیں جو اس دُنیا میں تو شاید نہ پکڑے جائیں لیکن خدا کی عدالت میں اقرا ء ایسے لوگوں کا گریبان ضرور پکڑے گی ۔
دوستوں کی آپسی چپکلش کی وجہ سے فروری 2021 میں مسکان شیخ نامی ٹک ٹاکر سمیت 4 افراد کو بھی قتل کر دیا گیا تھا ۔اس کے علاوہ 2022 میں ملتان کی عائشہ مسعود، جنہیں ‘عائشہ ٹک ٹاکر’ کے نام سے جانا جاتا تھا، ایک ٹک ٹاک گروپ کی رکن تھیں، جنہیں مقامی جرائم پیشہ افراد نے قتل کر دیا۔ ان کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ ایک آزاد خیال، خود اعتماد خاتون تھیں جو سوشل میڈیا پر متحرک تھیں۔ فیصل آباد کی ثناء خان کو 2023 میں اس وقت قتل کیا گیا جب انہوں نے ایک رشتے کی پیشکش کو ٹھکرا دیا، قاتل کو ان کی سوشل میڈیا پر موجودگی اور ‘بولڈ’ انداز ناپسند تھا۔ 2024 میں فوزیہ امجد کی ہلاکت کو حادثہ قرار دیا گیا، مگر ان کی ویڈیوز پر موجود دھمکی آمیز تبصرے اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ان کی موت محض ایک اتفاق نہیں تھی۔ان واقعات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہمارے معاشرے میں خواتین کے لیے سوشل میڈیا پر موجودگی ایک دو دھاری تلوار بن چکی ہے۔ ایک طرف یہ پلیٹ فارم ان کے لیے خودمختاری، آواز اور شہرت کا ذریعہ ہے، تو دوسری طرف اسی آزادی کی قیمت ان کی جان لینا بھی ہے۔ معاشرتی رویوں میں پدرشاہی سوچ اور عورتوں کی آزادی کو خطرہ تصور کرنے کا رجحان اب ڈیجیٹل ورلڈمیں بھی منتقل ہو چکا ہے۔ خواتین کی ویڈیوز کو “غیراخلاقی” قرار دینا، ان کی کردار کشی کرنا، اور ان کے خلاف تشدد پر اکسانا ہمارے معاشرے میں عام ہو گیا ہے۔ لیکن یہی لوگ ہر خاتون کی ٹک ٹاک بار بار پلے کر کے دیکھتے ہیں اور پھر یہی لو گ انہیں غلط بھی کہتے ہیں ۔ لیکن بہر حال کسی نے ٹک ٹاک پر غلط وڈیو بنائی یا ٹھیک ۔ اُنہیں اپنے طور پر سزا دینے کا فیصلہ کرنا جمہوری اور اسلامی معاشروں کا دستور نہیں ۔ اس کے لئے مُلکی قوانین موجود ہیں ۔ اور اُن کے تحت شکایت درج کرائی جا سکتی ہے تاکہ غیر اخلاقی اور دل آزاری والے مواد کی روک تھام کی جا سکے ۔ لیکن خود ہی منصف بن کر سزا دینا ، ایسے رویے صرف انفرادی نہیں بلکہ اب ایک اجتماعی سوچ کا عکس بن چُکے ہیں ۔ اور ایسے رویے معاشروں کی سماجی تباہی کا سبب بنتے ہیں ۔ریاستی اداروں کا فرض ہے کہ وہ نہ صرف ان جرائم پر سخت ایکشن لیں بلکہ ان کی روک تھام کے لیے عوام کو آگاہی، قانون سازی اور فوری انصاف کو یقینی بنائیں۔ میڈیا کو چاہیے کہ وہ سنسنی پھیلانے کی بجائے متاثرہ خواتین کے لیے ہمدردانہ اور سنجیدہ رویہ اپنائے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو بھی چاہیے کہ وہ نفرت انگیز تبصروں اور دھمکیوں کے خلاف موثر پالیسیاں بنائیں۔ اور ایسے افراد کے خلاف قانونی شکایات درج کرائیں تاکہ کسی جرم کو وقوع پذیر ہونے سے پہلے ہی روکا جا سکے ۔ والدین، اساتذہ، اور مذہبی و سماجی رہنما اس صورتحال میں ایک اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ نوجوان نسل کو یہ سکھانے کی ضرورت ہے کہ اختلاف، تنقید اور شہرت کا مطلب دشمنی نہیں ہوتا۔ ہر فرد کو اپنی مرضی سے جینے، بولنے اور سیکھنے کا حق حاصل ہے، چاہے وہ آن لائن ہو یا آف لائن۔ وہ اگر آپ کو پسند نہیں تو آپ اُس طرف رخ ہی نہ کریں ۔ لیکن کسی کی آزادی اس لئے ختم نہیں کی جا سکتی کہ وہ آپ کی سوچ یا آپ کے خیالات سے مطابقت نہیں رکھتی ۔ اگر ہم نے اس طرزِ فکر کو تبدیل نہیں کیا، تو نہ صرف مزید جانیں ضائع ہوں گی بلکہ ایک زہریلی سوسائٹی وجود میں آئے گی جہاں آزادی صرف مردوں کا حق سمجھا جائے گا۔سوشل میڈیا پر خواتین کے خلاف بڑھتے ہوئے جرائم اور ان کے قتل کے واقعات ایک بہت بڑے خطرے کی علامت ہیں۔ اور ایسا نظر آ رہا ہے کہ ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ ہم سماجی رویوں میں پسماندگی کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔ سوشل میڈیا کو قتل کا ہتھیار بننے سے روکنے کے لیے معاشرے کو اپنے رویے، قوانین، اور سوچ میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ورنہ کل کو ہر آواز، جو کسی کو پسند نہ آئے، خاموش کر دی جائے گی۔ اور ہم عوام صرف افسوس کے ایموجی ہی لگاتے رہ جائیں گے ۔
Leave a Comment
Your email address will not be published. Required fields are marked with *