مدیراعلی: ندیم اجمل عدیم


لالچ یا دباؤ میں کی گئی شادیوں کے سنگین نتائج

لالچ یا دباؤ میں کی گئی شادیوں کے سنگین نتائج

تحریرو تحقیق : سمیر اجمل

شادی ایک ایسا بندھن ہے جس میں بندھ کر لڑکیاں اپنے آپ کو محفوظ تصور کرتی ہیں تاہم لالچ یا دباؤ میں کی گئی شادیاں لڑکیوں کے لئے عذاب بن جاتی ہیں۔وہ بندھن جس نے کسی لڑکی کو عمر بھر کا تحفظ دینا ہوتا ہے وہی اس کے گلے کا پھندا بن جاتا ہے‘ ایسا ہی واقعہ فیصل آباد کے علاقے ڈجکوٹ کی رہائشی نورین کنول کے ساتھ پیش آیا ہے۔ ڈجکوٹ کی رہائشی نورین کنول کا تعلق مسیحی کیمونٹی سے ہے اور اس کی شادی چھ سال قبل چینی باشندے شین انتھین سے ہوئی تھی

نورین کی والدہ ممتا ز بی بی کے مطابق مقامی پاسٹر نے ان کی بیٹی کا نکاح چرچ میں پڑھایا تھا جس کے کچھ عرصہ بعد وہ اپنے خاوند کے ہمرہ چین روانہ ہوگی تھی‘ کچھ عرصہ تک تو ان کی بیٹی ان سے باقاعدگی سے بات چیت کرتی رہتی تھی اور بتاتی تھی کہ اس کی زندگی خوشگوار گز ر ہی ہے مگر شادی کے دو سال بعد ان کی بیٹی ان کے پاس واپس آگئی تھی‘ اس نے بتایا تھا کہ اس کے خاوند کا اس کے ساتھ رویہ اچھا نہیں رہا جس کی وجہ سے وہ واپس نہیں جانا چارہی تھی‘ نورین کے والد مقصود مسیح کا موقف اس حوالے سے تھوڑا مختلف ہے ان کا کہنا ہے کہ ان کی بیٹی کو ٹی بی کا مرض لاحق ہوگیا تھا جس کے علا ج کے لئے وہ پاکستان آئی ہوئی تھی‘ نورین کنول اپنی تین سالہ بیٹی شین روجر کے ہمراہ پاکستان میں اپنے والدین کے گھر رہائش پذیر تھی‘ یکم دسمبر2023 کو نورین کے بھائی سلمان نے فائرنگ کرکے اسے موت کے گھاٹ اتار دیا‘نورین کی والدہ ممتاز ب بی کا کہنا ہے کہ نورین کے بھائی نے اہل علاقہ کی باتوں پر مشتعل ہو کر فائرنگ کرکے اسے موت کے گھا ٹ اتار دیا تھا‘جبکہ اہل علاقہ کا کہنا ہے کہ نورین کے بھائی اور اہل خانہ اس پر دباؤ ڈالتے تھے کہ وہ چین اپنے خاوند کے پاس واپس چلی جائے مگر نورین واپس نہیں جانا چاہتی تھی جس کی وجہ سے اسے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ نورین کے قتل بعد اس کا چینی خاوند جس کے پاس کہ وہ واپس نہیں جانا چاہتی تھی پولیس کی مدد سے اس کی بیٹی شین روجر کو لے کر چین منتقل ہوگیا ہے

نورین کی والدہ ممتاز بی بی کا کہنا ہے کہ انہو ں نے چینی شہری سے اپنی بیٹی کی شادی اس کے اچھے مستقبل کے لئے کی تھی مگر انہیں کیا پتا تھا کہ یہ شادی اس کے لئے روگ بن جائے گی‘ اس حوالے سے ڈجکوٹ کے رہائشیوں طارق مسیح اور بابر مسیح کا کہنا ہے کہ نورین کے اہل خانہ نے اس کی شادی پیسے کے لالچ میں کی تھی‘ نورین کے علاوہ اور بھی درجنوں مسیحی لڑکیوں نے چینی باشندوں سے شادی کروا رکھی ہے ان میں سے کچھ لڑکیوں نے واپس آکر دوبارہ شادی کرلی ہے جبکہ کچھ لڑکیاں چین میں ہی پھنسی ہوئی ہیں۔چینی باشندو ں کی پاکستانی لڑکیوں سے شادی کا معاملہ پہلی بار سال 2019میں منظر عام پر آیا تھا جب فیصل آبادمیں دو سو کے لگ بھگمسیحی بچیوں کی چینی باشندوں کے ساتھ نکاح پڑھائے گئے تھے‘ بڑے پیمانے پر مسیحی لڑکیوں کی چینی باشندوں سے شادی کا معاملہ منظر عام پر آنے کے بعد اس وقت ایف آئی اے نے کارروائی کرتے ہوئے مسیحی لڑکیوں سے شادیاں کرنے والے چینی باشندوں سمیت ان پاسٹرز کو بھی حراست میں لیا تھا جو مسیحی لڑکیوں کے چینی باشندوں کے ساتھ نکاح پڑھا رہے تھے اس کارروائی کے نیتجے میں ایسی شادیوں کا سلسلہ تو کچھ عرصہ کے لئے رک گیا تھا مگر جن بچیوں نے دباؤ یا لالچ میں آکر شادیاں کی تھیں‘ ان کے لئے کسی نے نہیں سوچا ہے اس وقت بھی چینی باشندوں سے شادیاں کرنے والی سینکڑوں بچیاں چین میں موجود ہیں‘ ڈجکوٹ میں قتل ہونے والی نورین کنول کی بہن سمیاہ بھی انہیں میں سے ایک ہے جس کی بہن تو قتل ہوچکی ہے مگر وہ تاحال چین میں ہے‘ چین میں ان بچیوں پر کیا گزر رہی ہے اس کا احوال سے وہاں سے واپس آنے والی لڑکیاں بھی بیان کرتی ہیں جبکہ چینی باشندوں کی غیر قانونی شادیوں کے حوالے سے کارروائی کرنے والے اس وقت کے ایف آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر جمیل خا ن میو نے بھی ہولناک انکشافات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ کیسے غیر قانونی شادیوں کے نتیجے میں سمگل ہو کر دیار غیر میں پہنچنے والی لڑکیو ں کی بچہ دانیاں اور دیگر اعضا ء نکال کر بلیک مارکیٹ میں فروخت کئے جاتے ہیں‘ نورین کنول جیسی لڑکیاں لالچ یا دباؤ میں شادی تو کر بیٹھتی ہیں مگر ان کے پاس اس کے بعد واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہوتا ہے‘ نورین وہ واحد لڑکی نہیں ہے جسے لالچ میں کی گئی اس شادی کے عذاب سے نکلنے کے لئے موت کو گلے لگانا پڑا ہے اس سے قبل پشاور کی ایبی گیل بھی اس عذاب سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے لئے پھندا لے کر موت کو گلے لگا چکی ہے جبکہ گوجرانوالہ کی سمعیہ ڈیوڈ کی پراسرر موت بھی اسی کا شاخسانہ ہے۔فیصل آباد کی درجنوں بچیاں لالچ اور دباؤ میں کی گئی ان شادیوں کے اس عذاب سے جان چھڑوانے کے لئے جدوجہد کر رہی ہیں ‘ ا ن میں سے کچھ لڑکیوں نے تو طلاق کے حصول کے لئے عدالتوں سے رجوع کر رکھا ہے جبکہ کچھ لڑکیو ں نے چین سے واپس آکر طلاق لئے بغیر ہی شادیاں کر لی ہیں‘ مریم بی بی بھی ان میں سے ایک ہیں مریم بی بی نے چین سے واپس آنے کے بعد اپنے کزن سے شادی کر لی ہے اور ان کے دو بچے ہیں مریم کا کہنا ہے کہ شادی کے بعد اسے جو عذاب سہنا پڑا ہے وہ بتا نہیں سکتی‘ اسے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا‘ بھوکا پیاسا رکھا جاتا ہے اور کھیتوں میں کام کرنے پر مجبور کیا جاتا تھا‘ لالچ میں آکر شادی کرنا ایک ڈراؤنا خواب تھا وہ اس کے بارے میں سوچنا بھی نہیں چاہتی ہیں۔ فیصل آباد کی نتاشا دختر لعل مسیح نے طلاق کے حصول کے لئے عدالت سے رجوع کر رکھا ہے‘ اس کا کہنا ہے کہ اس کے والدین نے اس لالچ میں اس کی شادی کرادی تھی کہ ان کی غربت دور ہوجائے گی مگر اس کے نتائج اس کے برعکس نکلے ہیں اب نہ ان کے عزیز و اقارب ان سے ملتے ہیں اور نہ ہی انہیں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتاہے‘ لالچ یا دباؤ میں شادیاں کرنے والی لڑکیاں اب دوہرا عذاب بھگت رہی ہیں ایک اپنی عزت کی صورت میں گنوا نے کی صورت میں او ر دوسر ا ان رویہ جات اور طعنوں کی شکل میں جو انہیں عزیز و اقارب اور معاشرے کی طرف مل رہے ہیں۔

مسیحی رہنما پاسٹر عمران صادق کا کہنا ہے کہ مسیحی لڑکیوں کی چینی شہریوں سے شادیاں ہر لحاظ سے غیر قانونی ہیں کیونکہ کسی بھی مسیحی عقیدے پر ایمان نہ رکھنے والے کسی بھی شخص کا پاسٹرنکاح نہیں پڑھاسکتے‘ اب جبکہ ان شادیوں کی حقیقت سامنے آچکی ہے تو حکومت کو لالچ یا دباؤ میں کی جانے والی ایسی شادیوں کی روک تھام کے لئے موثر اقدامات کرنے چاہئے اور متاثرہ بچیوں کی بحالی کے لئے سوچنا چاہئے تاکہ وہ معاشرے میں پروقار طریقے سے زندگی گزار سکیں۔

HumDaise
ADMINISTRATOR
PROFILE

Posts Carousel

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked with *

Latest Posts

Top Authors

Most Commented

Featured Videos