مدیراعلی: ندیم اجمل عدیم


کم عمری کی شادی اور جبری مذہب تبدیلی توجہ طلب مسلہ

کم عمری کی شادی اور جبری مذہب تبدیلی توجہ طلب مسلہ

\

\

سمیر اجمل

معاشرتی مجبوریوں‘ رسوم و رواج‘ اور علاقائی روایات کی وجہ سے پاکستان میں بہت سی بچیو ں کو کم عمری کی شادی کا عذاب جھیلنا پڑتا ہے‘مگر اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے بچیوں کو کم عمری کی شادی کے ساتھ ساتھ جبری مذہب تبدیلی کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے‘ پاکستان میں اقلیتی بچیوں کا اغوا اور جبری مذہب تبدیلی کا عمل سنگین صورت اختیار کر چکا ہے جس کے باعث مذہبی اقلیت سے تعلق رکھنے والے افراد پریشانی اور خوف ہراس کا شکار ہیں‘ اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے سرگرم عمل ادارہ برائے سماجی انصاف (سی ایس جے) کی انسانی حقوق جائزہ رپورٹ کے مطابق کم عمری کی شادیوں اور جبری مذہب تبدیلی کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔سال 2021میں جبری مذہب تبدیلی کے 78واقعات رپورٹ ہوئے جبکہ سال 2019کے دوران 50اور سال 2020کے دوران 15واقعات رپورٹ ہوئے تھے‘ اس رپورٹ کے نتاظر میں دیکھا جائے تو سال 2019اور 2021کی نسبت مذہب تبدیلی کے واقعات میں بالترتیب 80فیصد اور 50فیصد اضافہ ہوا ہے‘ غیر سرکاری تنظیموں اور میڈیا سے حاصل کئے گئے اعداد وشمار کے مطابق گزشتہ پانچ کے دوران جبری مذہب تبدیلی کے جو واقعات منظر عام پر آئے ہیں ان میں مذہبی شناخت کے حوالے سے 42ہندو‘39مسیحی‘اور ایک سکھ خاتون جبری مذہب تبدیلی کا شکار ہوئیں‘جبری مذہب تبدیلی کا شکار ہونے والی بچیوں میں سے 76فیصد بچیاں کم عمر یا نابالغ ہیں جس کی وجہ سے ایف آئی آرز اور دیگر رپورٹس میں انکا ذکر نہیں ہے‘جبری مذہب تبدیلی کا شکار ہونے والی بچیوں کے کم عمر ہونے کا بڑا ثبوت یہ ہے کہ ان کے حوالے سے متعلقہ تھانوں میں ایف آئی آرز تو درج ہیں مگر ان ایف آئی آرز میں بچیوں کے عمر کا ذکر تک نہیں ہے‘ اقلیتی بچیوں کی کم عمری کی شادیوں اور جبری مذہب تبدیلی کے حوالے سے صوبہ سندھ پہلے نمبر پر ہے‘ صوبہ سند ھ میں کم عمری کی شادی اور جبری مذہب تبدیلی کے رپورٹ ہونے والے واقعات کی تعداد 42کے لگ بھگ ہے‘صوبہ پنجاب میں تاحال ایسے 39کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں‘خیبر پختونخواہ کے ضلع ہری پور اور بلوچستان کے ضلع سبی میں بھی جبری مذہب تبدیلی کے واقعات رپورٹ ہوچکے ہیں جس سے کی وجہ سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کا کوئی بھی صوبہ ایسا نہیں ہے جہاں پر اقلیت سے تعلق رکھنے والی بچیاں کم عمری کی شادی یا جبری مذہب تبدیلی کا شکار نہیں ہوئی ہیں۔فیصل آباد کی مہک بشیر بھی انہی بچیوں میں سے ہیں جو کم عمری کی شادی اور جبری مذہب تبدیلی کا شکار ہوئی ہیں۔مہک بشیر کاتعلق مسیحی کیمونٹی سے ہیں ا نہیں سال 2020میں ایک شخص نے اسلحہ کے زور پر اغوا کر کے تین ماہ سے زائد عرصہ اپنے پاس رکھ کر جنسی تشدد کا نشانہ بنایا اور اپنے جنسی ہوس کو شادی کا نام دینے کے لئے جعلی نکاح نامہ بھی تیار کروالیا‘جس کے نتیجے میں مہک ایک بچی کی ماں بن گئی مہک کے اغواء کے بعد مسیحی کیمونٹی کی جانب سے بھرپور احتجاج اور قانونی چارہ جوئی کی گئی جس کے بعد عدالتی حکم پر پولیس نے مہک کو برآمد کرکے والدین کے حوالے کردیا جس کے بعد ملز م نے ایک با رپھر مہک کو اغوا ء کرنے کی کوشش کی اس دوران مزاحمت پر فائرنگ سے مہک کی والدہ فائرنگ سے زخمی ہوگئیں اور انہیں پانچ گولیاں لگیں تاہم ملزم مہک کو لے جانے میں کامیاب نہیں ہوسکا‘ مہک بشیر کو اغواء او ر جنسی تشدد کا نشانہ بنانے والے ملزم کو پولیس گرفتار کرنے میں ناکام رہی ہے جس کی وجہ سے مہک اور اس کے اہل خانہ تاحال خوف و ہراس کا شکار ہیں‘ اقلیتی بچیوں کی کم عمری کی شادی اور جبری مذہب تبدیلی کے حوالے سے مینارٹیز الائنس پاکستان کے چیئر مین ایڈوکیٹ اکمل بھٹی کا کہنا ہے کہ اقلیت سے تعلق رکھنے والی جب کسی بچی کو اغواء کر لیا جاتا ہے تو ایف آئی آر کے اندرا ج کے وقت حقائق مسخ کر دئیے جاتے ہیں‘جبکہ باقی کسر تفتیش کے دوران نکال دی جاتی ہے انہوں نے مہک بشیر کے کیس کے حوالے سے بتایا کہ وہ اس کیس میں مدعیہ کی طرف سے پیش ہورہے تھے انہیں یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ جو واقعات مدعیہ نے بیان کئے تھے پولیس کی تفتیش اس کے برعکس تھی‘انہوں نے بتایا کہ بھرپور پیروی کی وجہ سے مہک بشیر والدین کے پاس واپس تو پہنچ گئی مگر پولیس ابھی تک اسے جنسی تشدد اور جبری مذہب تبدیلی کا شکار بنانے والے مجرم کو پولیس گرفتار نہیں کر سکی ہے‘ کم عمری کی شادی اور جبری مذہب تبدیلی کا معاملہ مذہبی اقلیتوں کے لئے اس قدر سنگین صورتحال اختیار کرچکا ہے کہ اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد”بیٹی بچاؤ“ اور بیٹیاں سب کی سانجھی“ جیسی تحریکیں چلانے پر مجبور ہیں‘ بیٹی بچاؤ تحریک کے بانی نعیم یعقوب گل کا کہنا ہے کہ حکومتی اداروں کی جانب سے بروقت اور موثر کارروائی نہ ہونے کی وجہ سے وہ بیٹی بچاؤ تحریک شروع کرنے پر مجبور ہوئے ہیں کیونکہ جس طرح سے کم عمر اقلیتی بچیوں کے اغواء اور مذہب تبدیلی کا عمل جاری ہے یہ ایک تشویشناک صورتحال اختیار کرچکاہے اس روکنے کے لئے حکومت کو فوری اقدامات کرنے چاہئے۔

HumDaise
ADMINISTRATOR
PROFILE

Posts Carousel

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked with *

Latest Posts

Top Authors

Most Commented

Featured Videos