مدیراعلی: ندیم اجمل عدیم


خواتین کو الزامات سے بچانے کیلئے کرسچین ڈائیورس ایکٹ میں ترمیم لازم ہے

خواتین کو الزامات سے بچانے کیلئے کرسچین ڈائیورس ایکٹ میں ترمیم لازم ہے

 

 

سمیر اجمل

یہ نام فرضی ہے مگر کہانی بالکل سچی ہے‘ نسرین بی بی فیصل آباد کی رہائشی ہے جس کی شادی 2007میں فیصل آباد کے نواحی علاقے شاہ کوٹ کے رہائشی الیاس مسیح سے ہوئی تھی۔ الیاس مسیح کراچی میں ایک نجی کمپنی میں ملازمت کرتا تھا‘دو سال تک تو نسرین اور الیاس کی ازدواجی زندگی خوشگوار رہی‘تاہم دو سال کے بعد الیاس مسیح نے کسی عورت میں دلچسپی لینا شروع کردی جس کے بعد ان کے حالات خراب ہونا شروع ہوگئے‘الیاس مسیح نسرین کو ان کے والدین کے گھر چھوڑکر خود کراچی چلا گیا‘ نسرین بی بی ہر صورت میں اپنا گھر بچانا چاہتی تھی اس لئے اس نے اپنے خاوند او ر سسرال والوں سے رشتہ بحال رکھنے کی بہت کوشش کی‘ خاوند سے تو اس کا رابطہ موبائل فون کے ذریعے شاذو ناذر ہی ہوتا تھا مگر نسرین نے اپنے سسرال میں خاوند کے عزیز و اقارب میں سے کچھ خواتین سے راوبط بنارکھے تھے تاکہ بہتری کا راستہ نکالا جا سکے‘ انہیں خوتین میں سے ایک خاتون نے ایک دن نسرین کو بتایا کہ اس کا خاوند اس کو طلاق دینا چاہتاہے اور اس کے لئے اس نے کسی وکیل سے رابطہ کیا ہے‘ نسرین بی بی اور اس کے گھر والے اس بات کو ماننے کو تیار نہیں تھے کیونکہ ان کے مطابق تو ان کے مذہب میں طلاق ہو ہی نہیں سکتی اسی مفروظے کی بنا پر نسرین بی بی اور اس کے گھر والو ں نے تین ماہ سے زائد عرصہ تک اس بات پر توجہ نہ دی تاہم تین ماہ کے بعد اسی خاتون نے نسرین بی بی کو دوبارہ بتایا کہ اسے پتہ چلا ہے کہ الیاس (نسیم کے شوہر) نے شاہکوٹ کی عدالت میں کیس کیا ہواہے جس کا فیصلہ ہونے والا ہے اس پر نسرین کے والدین کو تشویش ہوئی اور انہوں شاہکوٹ میں جاکر عدالتی عملہ سے رابطہ کیا تو انہیں پتہ چلا کہ الیاس مسیح کی جانب سے پانچ قبل کیس دائر کیا گیا تھا آنے والے دنوں میں اس کیس کا فیصلہ ہونے والا ہے‘ نسرین بی بی کے اہل خانہ نے فوری طور پر وکیل کا بندوبست کرکے کیس کی فائل نکلوائی جسے پڑھ کر ان کے ہوش اڑ گئے‘ نسرین کے شوہر نے اس پر بدکاری کا الزام لگاتے ہوئے عدالت میں فرضی کہانی بیان کی تھی جس میں لکھا گیا تھا کہ اس نے نسرین کے ”بوٹا مسیح“ نامی کسی شخص کے ساتھ ناجایز تعلقات ہیں‘بوٹا مسیحی وہی کردار ہے جس کا سہارا لے کر مسیحی کیمونٹی سے تعلق رکھنے والے مردعلیحدگی یا طلاق کے حصول کے لئے عدالت سے رجوع کرتے ہیں کیونکہ کرسچین ڈایورس ایکٹ اکے تحت بدکاری کا الزام عائد کئے بغیر کوئی مرد خاتون سے علیحدگی حاصل نہیں کرسکتاہے‘ نسرین کے شوہر نے نہ صرف کیسز میں فرضی کہانی بیان کی تھی بلکہ ایڈریس بھی فرضی درج کیا تھا تاکہ عدالتی نوٹسزاس تک نہ پہنچ سکیں اور عدالت سے یکطرفہ فیصلہ حاصل کیا جا سکے‘ عین ممکن ہے کہ ایسا ہو بھی جاتا تاہم نسرین کے سسرالیوں میں سے کسی خاتون کے بتانے پر اسے بروقت پتہ چل گیا جس سے عدالت میں حقیقت بیان کرنے پر کیس کا فیصلہ اس کے حق میں ہوگیا اور عدالت نے الیاس مسیح کا دعوی خارج کردیا۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی عدالت سے دعوی خارج ہونے کے باوجود الیاس‘ نسرین کو گھر لے کر نہیں گیا‘ مختلف حیلے بہانوں سے نسرین اور اس کے والدین کو تنگ کرتا رہا جس پر چار سال کے بعد نسرین نے والدین کی رضا مندی سے الیاس سے علحیدگی اختیار کرلی‘نسرین سے علحیدگی کے بعد الیاس نے دوسری شادی کر لی مگر نسرین کے والدین نے جہیز میں جو سامان الیاس کو دیا تھا وہ اس نے واپس نہیں کیا‘ نسرین مسیح کا کہنا ہے کہ اسے اتنا علیحدگی کا دکھ نہیں ہے جتنا اسے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کا دکھ ہے کیونکہ دوسری شادی کے لئے الیاس مسیح نے ان پر جو الزامات لگائے ہیں ان کا مدوا شاید کبھی نہ ہوسکے‘ ایڈوکیٹ لعذر مسیح کا کہنا ہے کہ تاحال پاکستان میں انگریز کا بنایا ہوا ایکٹ نافذ ہے جس میں کہ بہت پہلے تبدیلی ہوجانا چاہئے تھی کیونکہ اس ایکٹ کی وجہ سے خواتین کو بدچلنی کے الزامات سہنے پڑتے ہیں اس وقت بھی عدالتوں میں سینکڑوں ایسے کیسز ہیں جن میں محض علیحدگی کے لئے بچیوں پر بدچلنی کے الزامات عائد کئے گئے ہیں۔ اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے سرگرم عمل سوشل ورکرز عکسہ کنول کا کہنا ہے کہ مسیحی بچیوں کو بدچلنی جیسے الزامات سے بچانے کے لئے کرسچین ڈائیورس ایکٹ میں ترامیم انتہائی ضروری ہیں کیونکہ اس میرج ایکٹ کے ہوتے ہوئے باوقار مسیحی خواتین بھی پریشانی کا شکار ہیں

HumDaise
ADMINISTRATOR
PROFILE

Posts Carousel

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked with *

Latest Posts

Top Authors

Most Commented

Featured Videos