مدیراعلی: ندیم اجمل عدیم


موسیماتی تغیرات کمزور طبقات سے روزگار لگےچھیننےموسیماتی تغیرات کمزور طبقات سے روزگار لگے

موسیماتی تغیرات کمزور طبقات سے روزگار  لگےچھیننےموسیماتی تغیرات کمزور طبقات سے روزگار  لگے

 

 

تحریر و تحقیق : سمیر اجمل
پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جو بری طرح سے موسیمیاتی تغیرات کی ذد میں ہیں‘ بے موسمی بارشیں‘ شدید گرمی‘خشک سالی اور سردی کی شدید ترین لہر‘گزشتہ چند سالوں سے پاکستانیوں کو یہ سب جھیلنا پڑ رہا ہے۔ ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن (ڈبلیو‘ ایم‘ او) کے مطابق پاکستان ماحولیاتی تبدیلی سے متاثرہ دس ٹاپ ٹین ممالک میں شامل ہے اور ان ٹاپ ٹین ممالک میں پاکستان کا نمبر آٹھواں ہے۔ موسیماتی تغیرات کی وجہ سے ویسے تو ہر شہری متاثر ہورہا ہے مگر کمزور طبقات جن میں مذہبی اقلیتں بھی شامل وہ اس سے زیادہ متاثر ہیں‘ یہ موسیماتی تغیرات ان کمزور طبقات سے ان کا روز گار چھینے لگے ہیں‘ موسیماتی تبدیلیوں کی وجہ سے ان کے روزگار کے مواقع محدود ہوتے جارہے ہیں جس سے ان کا گزر بسر مشکل ہوتا جارہا ہے۔طفیل مسیح کا تعلق مسیحی کیمونٹی سے ہے اور بھٹہ مزدور ہے‘ طفیل مسیح اہل خانہ کے ہمراہ بھٹہ پر ہی رہتا ہے-طفیل مسیح کا کہنا ہے کہ اس کی عمر بھٹہ پر کام کرتے ہی گزری ہے اپنی بچیوں کی شادی بھی اس نے بھٹہ سے ملنے والی اجرت کو جمع کرکے ہی کی ہے‘ آٹھ‘ نو سال پہلے تک تو معاملات ٹھیک تھے مگر اب حالات نہیں ویسے نہیں رہے‘ بے وقت کی بارشوں کی وجہ سے کئی کئی ہفتہ بھٹے بند رہتے ہیں اس دوران ہمارے پاس کوئی روزگار نہیں ہوتا جس کی وجہ سے بھٹہ مالکان سے پیشگی کی صورت میں قرض لینا پڑتا ہے او رپھر سال کے باقی دن اینٹیں بنا بنا کر قرض اتارنے میں گزر جاتے ہیں اور بچتا کچھ نہیں۔ ساون مسیح بھی اپنے اہل خانہ کے ہمراہ فیصل آباد میں ایک بھٹہ پر مزدوری کرتا ہے‘ ساون مسیح کا کہنا ہے کہ بارشوں کے ساتھ ”سموگ“ بھی بھٹہ مزدورں کے لئے عذاب الہی کی ماند ہے‘ سموگ کی وجہ سے پنجاب میں نومبر کے مہینہ میں بھٹے بند کردئیے جاتے ہیں جوکہ جنوری کے آخر تک بند رہتے ہیں‘ ان تین مہینوں میں بھٹہ مزدور وں کے پاس کوئی روزگار نہیں ہوتا‘سردی بھی بہت زیادہ ہوتی ہے جس سے ان کے بیوی بچے بیمار ہوجاتے ہیں مگر روزگار نہ ہونے کی وجہ سے وہ ان کے لئے دوائی تک نہیں خرید سکتے‘ محمد شہزاد ایک بھٹہ مالک ہیں ان کا کہنا ہے کہ بے وقت کی بارشوں اور سموگ کی وجہ سے ان کا کاروبار ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے‘ سموگ کی وجہ سے ا ن کے بھٹے تو جبری طور پر بند کروا دئیے جاتے ہیں مگر انہیں کسی قسم کی مالی امداد یا سبسڈی نہیں دی جاتی حالانکہ بھٹے بند ہونے کی صورت میں بھی بھٹہ پر کام کرنے مزدوروں اور ان کے اہل خانہ کی کفالت ان کے ذمہ ہوتی ہے۔ شازیہ بی بی کا تعلق مسیحی برادری سے ہے اور وہ کھیت مزدور ہیں اس کا کہنا ہے اس کمائی کا بڑا ذریعہ کپاس کی چنائی تھا‘ آج سے سات سال پہلے تک کپاس کی چنائی سے وہ پندرہ سو سے دوہزار روپے روزانہ کما لیتی تھی جن کو وہ بیٹوں کے جہیز کے لئے جمع کررہی تھی مگر زمینداروں نے کپا س کی جگہ پرتل‘مکئی‘ سبزیاں اور دیگر اجناس کاشت کرنا شروع کردی ہیں جبکہ کپاس کی اگیتی کاشت شروع کردی ہے‘ اگیتی کپاس کی چنائی جولائی اور اگست میں ہوتی ہے یہ دن حبس کے ہوتے ہیں ان جیسی زیادہ عمر کی خواتین حبس کے دنوں میں کھیتوں میں کام نہیں کر سکتی چنائی کرتے ہوئے وہ اکثر بے ہوش ہوجاتی تھیں جس کی وجہ سے اب وہ چنائی کے لئے نہیں جاتی جبکہ روایتی طور پر کپاس کی چنائی کے جو مہینے ہیں (اکتوبر‘ نومبر) ان میں زمیندار کپاس کاشت کرنے کی بجائے اب تل‘ مکئی‘ چاول‘سبزیاں اور دیگر اجناس کاشت کر رہے ہیں جس کی وجہ سے کپاس کی چنائی جو ان کے روزگار کا واحد ذریعہ تھا ان سے چھن چکا ہے اس حوالے سے مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے کاشتکار رابرٹ مسیح کا کہناہے کہ گزشتہ چند سالوں کے دوران ایسی موسمیاتی تبدیلیاں ہوئی ہیں جس کی وجہ سے کاشتکار کپاس کی اگیتی کاشت پر مجبور ہوگئے ہیں‘ کپاس کی اگیتی کاشت کی وجہ سے کاشتکاروں کو تھوڑی بہت بچث ہوجاتی ہے‘ روایتی طریقہ سے کاشت کی گئی کپاس یا تو بارشوں کی نظر ہوجاتی ہے یا موسم کی وجہ سے پیدوار نہیں دے پاتی جس کی وجہ سے وہ اب متبادل فصلیں کاشت کر رہے ہیں‘برکت مسیح راج مستری ہیں جن کی عمر 51سال ہیں ان کا کہنا ہے کہ آج سے نو سال پہلے تو ان کا روزگار بہت اچھا چل رہا تھا مگر اب سال میں کچھ مہینے ہی ایسے ہوتے ہیں جن میں روزگار دستیاب ہوتاہے باقی دنوں میں یا تو بارش کی وجہ سے کام بند ہوتا ہے یا پھر شدید سردی اور گرمی کی وجہ سے وہ کام نہیں کرپاتے جس کی وجہ سے انہیں معاشی مشکلات کا سامناہے‘ یہ وہ عوامل ہیں جو موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے افرادکے لئے روزگار کے مواقع محدود کرنے کا سبب بن رہے ہیں‘ پاکستان میں مذہبی اقلیتیں چونکہ پہلے ہی بہت پسماندہ ہیں اس لئے حکومت وقت کو ان کے بارے میں سوچنا چاہئے ایسا نہ ہوں کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ان کی معاشی مشکلات ا س قدر بڑھ جائیں کہ ان کے لئے جینا دشوار ہوجایے

HumDaise
ADMINISTRATOR
PROFILE

Posts Carousel

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked with *

Latest Posts

Top Authors

Most Commented

Featured Videos